تحریر: سید بدرسعید
گزشتہ برس تک دانشوروں کی رائے چلتی رہی کہ قربانی کی بجائے ان پیسوں سے کسی غریب کی مدد کی جا سکتی ہے جو شاید زیادہ کار ثواب ہے ،اس پر عرض کیا تھا کہ قربانی کا مقصد ہی یہ احساس دلانا ہے کہ آپ آئی فون کی بجائے سستا موبائل اور ٹیوٹا کرولا کی بجائے مہران لے کر باقی پیسے کسی ضرورت مند کی مدد یا کسی کی بیٹی کی شادی کے اخراجات پر خرچ کر دیں۔۔اس سال ہمارے دانشوروں میں ایک نئی سوچ نے جنم لیا ہے کہ قربانی کے جانوروں سے بچوں کی محبت کا جذبہ پیدا ہونے کے بعد انہیں ذبح کر دینے سے بچوں کی نفسیات پر کیا اثر پڑتا ہے ؟ پہلی بات تو یہ کہ اگر آپ قربانی کا مقصد صرف گوشت کے لیے فریج بھرنا ہی سمجھتے ہیں تو پھر یقینا بچوں پر بہت برا اثر پڑتا ہے کیونکہ آپ نے اپنے بچوں کو قربانی کے مقصد اور پیغام سے آگاہ ہی نہیں کیا ۔
چند سال پہلے تک بچوں کی نفسیات پر اس کا برا اثر نہیں پڑتا تھا ۔ عید سے دس دن قبل قربانی کے جانور لائے جاتے تھے ، بچوں کو بتایا جاتا تھا کہ اسے اللہ کی خوشی کے لیے قربان کریں گے ۔ ایک ایک جانور دو دو تین تین بچوں کے نام لگایا جاتا اور وہ اس کی خوب ٹہل سیوا کرتے تھے ۔ ان میں باقاعدہ مقابلہ ہوتا کہ کس کا جانور زیادہ تگڑا ہو گا ۔ اور پھر قربانی کے وقت وہ بچے وہیں کھڑے ہو کر قربانی دیکھتے تھے ۔ اب اس دور کی خوبصورتی دیکھیے ، ایک کا مہمان آتا تو ہمسائے کا بھی مہمان سمجھا جاتا ۔ برف اور سالن ایک دوسرے کو دینے یا مانگنے کو حق سمجھا جاتا تھا ۔ٹیلی فون اور ٹی وی پورے محلے کا ہوتا تھا ۔اور جن بچوں کی نفسیات پر آج برا اثر پڑتا ہے ویسے ہی بچے اس دور میں کھلونے اور کھانا بانٹنا سیکھتے تھے ۔ یہاں تک کہ اللہ کے لیے معاف بھی کر دیا جاتا تھا ۔ دو بچے لڑتے تو تیسرا آواز لگا دیتا کہ لڑائی لڑائی معاف کرو اللہ کا گھر صاف کرو اور لڑائی ختم ہو جاتی تھی ۔ کیونکہ اس وقت بچوں کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کا واقعہ سنایا جاتا تھا ، انہیں قربانی کا اصل مقصد اور پیغام بتایا جاتا تھا ۔ آج شاید ہمارے پاس اس کا وقت نہیں بچا اس لیے اب بچے کی نفسیات متاثر ہونے لگی ہے۔۔
اب اس تصویر کا سب سے خوفناک رخ دیکھیے ۔ ملٹی نیشنل کمپنیز کی مارکیٹنگ کو سمجھنے والے یقینا جانتے ہیں کہ پراجیکٹ لانچ کرنے سے پہلے برین واشنگ کی جاتی ہے ۔ مارکیٹنگ میں اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ بچے کی گیند کا رنگ پیپسی کے لوگو کے رنگ پر ہو تاکہ جو بچہ دکاندار سے کہے کہ مجھے پیپسی والی گیند دے دیں وہ بڑا ہو کر لاشعوری طور پر پیپسی پینے لگے ۔ برانڈز آپ کو اس سطح پر لے آئے ہیں کہ اب آپ مارکیٹ سے مہنگا برگر کھا کر سیلفی بناتے ہیں اور لوکیشن ڈال کر لاشعوری طور پر اس ریسٹورنٹ کی مفت مارکیٹنگ کرتے ہیں جو آپ کو مہنگا برگر بیچتا ہے اور عزت اتنی دیتا ہے کہ گھر میں اٹھ کر پانی نہ پینے والے سیلف سروس کے نام پر ویٹر کا کام بھی خود کرتے ہیں ۔ اب بھی یہی ہو رہا ہے ۔ اگلے چند برس میں مارکیٹ میں ایسے برانڈز کی بھرمار ہو گی جہاں آپ قربانی کے پیسے جمع کروائیں گے اور عید پر گوشت لے جائیں گے ۔ آپ نے اپنا جانور تک نہ دیکھا ہو تا ، آپ کو یہ بھی علم نہ ہو گا کہ اسے تکبیر پڑھ کر ذبح کیا گیا یا نہیں ۔ یہی کمپنیز ڈلیوری چارجز لے کر گوشت آپ کے رشتہ داروں میں بھی تقسیم کرنے لگیں گی ۔ عید پر اپنے جانور پر خود چھری چلانے کا جو درس ہے وہ تو ہم کب کا ختم کر چکے ہیں اب تو ایک پورا تہوار زد میں ہے ۔ عید قربان تربیت اور سبق کی بجائے گوشت ڈے بنتا جا رہا ہے ۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں دانشوروں کا شکار ہو کر وہ وقت نہ آئے جب کمپنیز آفر کریں ، ہمارے یہاں عید پر قربانی کی جاتی ہے ، عید کے روز قربانی کا گوشت دستیاب ہو گا اور آپ آرڈر کریں کہ اس عید پر بکرے کے دو کلو گوشت کی بکنگ کر لیں ۔ اس سب کے لیے ضروری ہے کہ پہلے آپ کے ذہن میں یہ خیال پختہ کیا جائے کہ قربانی کا جانور گھر لانے سے بچوں کو جراثیم لگتے ہیں اور اگر بچوں کو ان سے محبت ہو جائے تو اس جانور کی قربانی سے بچوں کی نفسیات پر برا اثر پڑتا ہے ۔ یقین مانیں مادیت پسندی اور کمرشل ازم کے فروغ کے لیے یہ سب بہت ضروری ہے (سید بدر سعید )