quetta k bebas sahafi or maraat ke bojh

کوئٹہ کے بے بس صحافی اور مراعات کے بوجھ تلے دبی یونین

تحریر: جمیل قاسم، گوادر

بلوچستان کی صحافت کا حال ایسا ہے کہ اگر کوئی غیر جانبدار تجزیہ کرے تو ہنسی آئے یا آنسو بہائے، یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے۔ کوئٹہ میں پریس کلب کی حرمت دوسری بار پامال ہوئی، پولیس گردی عروج پر رہی، مگر نام نہاد صحافتی علمبردار ایسے خاموش رہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ سوائے ایک رسمی بیان کے، کوئی عملی قدم اٹھانے کی زحمت نہیں کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ اگر کل کوئی آکر کلب پر قبضہ کر لے، تو یہ “خاموش تماشائی” کیا کریں گے؟

بلوچستان یونین آف جرنلسٹس، صرف نام کا بوجھ؟ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے کم از کم احتجاج کی ایک کال تو دے۔ یا پھر مان لے کہ یہ یونین صرف نام کی ہے، جس کا کام صرف سرکاری تقریبات میں شرکت کرنا رہ گیا ہے۔ اگر یہ یونین اپنے ہی صحافی بھائیوں کے لیے آواز بلند نہیں کر سکتی تو اس کا وجود کیوں ہے؟ یا پھر اس کا اصل مقصد وہ مراعات اور فوائد ہیں، جو سرکاری مہربانیوں کے ذریعے حاصل کیئے جاتے ہیں؟

کوئٹہ پریس کلب پر حملہ ایک لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے تھا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ واقعہ بھی ماضی کے دیگر واقعات کی طرح خاموشی میں دفن ہو جائے گا۔ جن صحافیوں کا کام ظلم کے خلاف لکھنا اور بولنا تھا، وہی آج اپنی بے بسی کی داستانیں رقم کر رہے ہیں۔

حکومت کی پالیسی ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ بلوچستان میں صحافت کو یا تو کنٹرول میں رکھو، یا پھر اتنا بے بس کر دو کہ وہ خود ہی کسی قابل نہ رہے۔ جب پولیس گردی پریس کلب کے دروازے تک پہنچ گئی ہے، تو اس کا مطلب یہی ہے کہ صحافیوں کی بے بسی کو ایک پالیسی کے تحت برقرار رکھا جا رہا ہے۔

یہ وہی حکومت ہے جو آزادی صحافت کے بلند و بانگ دعوے کرتی ہے، مگر عملی طور پر صحافیوں کو دبانے کے لیے ہر ممکن طریقہ اپناتی ہے۔ ایک طرف میڈیا ہاؤسز پر دباؤ، دوسری طرف صحافیوں کو غیر ضروری مقدمات میں الجھانا اور اب پریس کلب جیسے مقدس مقام پر دھاوا بولنا۔ سوال یہ ہے کہ کیا صحافت صرف وہی رہے گی، جو حکومت کے حق میں ہو؟ اگر یہی حالات رہے، تو بلوچستان میں آزاد صحافت کا وجود بھی قصہ پارینہ بن جائے گا۔

آج صحافیوں کے پاس دو راستے ہیں یا تو وہ اپنی مراعات اور مفادات کی چادر لپیٹ کر خاموشی اختیار کیئے رکھیں یا پھر اس بے حسی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اگر اب بھی یونین خاموش رہی، تو پھر اسے سرکاری یونین کا نام دے دینا زیادہ مناسب ہوگا۔

کوئٹہ پریس کلب پر حملہ محض ایک واقعہ نہیں، یہ ایک وارننگ ہے۔ اگر آج بھی صحافی نہ جاگے، تو کل وہ اپنے پیشے اور شناخت کے تحفظ کے لیے بھی ترسیں گے۔ حکومت کی پالیسی تو واضح ہے، مگر کیا صحافی خود بھی اپنی بے بسی پر راضی ہو چکے ہیں؟ یہ سوال شاید ہمیشہ جواب طلب ہی رہے گا۔(جمیل قاسم،گوادر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں