تحریر: جاوید چودھری۔۔
’’اور میں اس دن قدرت کے راز تک پہنچ گیا‘ میں نے ایک لمبی سانس لی‘ ایک طویل قہقہہ لگایا اور اٹھ کر گھر آ گیا‘ مجھے اپنے طویل قہقہے اور لمبی سانس سے آئن اسٹائن‘ نیوٹن اور لوئی پاسچر کی مسرت کی خوشبو آ رہی تھی‘ میں نے اس دن جانا‘ سرشاری کی وہ کون سی کیفیت تھی جس میں ارشمیدس پانی کے ٹب سے نکلا اور میں نے پالیا‘ میں نے پا لیا کے نعرے لگاتا ہوا ننگا گلی میں آگیا‘ لوئی پاسچر کپڑے پھاڑ کر لیبارٹری سے باہر آگیا اور دیوانہ وار قہقہے لگاتا رہا یا نیوٹن سیب اٹھا کر گائوں میں دوڑ پڑا یا آئن اسٹائن سڑک پر ایک ٹانگ پر ناچنے لگا‘ قدرت کا راز پا جانا اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے اور یہ نعمت انسان کو چند لمحوں کے لیے پاگل کردیتی ہے‘ میری کیفیت بھی اس وقت ویسی تھی‘ میں نیم پاگل ہو چکا تھا‘ میں مسلسل قہقہے لگا رہا تھا اور لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا‘ میرے گھر والے پریشان ہو گئے‘ ان کا خیال تھا مجھے نقصانات‘ دھوکوں‘ خرابیوں اور پریشانیوں نے پاگل کر دیا ہے ‘ میں دیوانہ ہو گیا ہوں‘ مجھے آپ بھی اس وقت دیکھتے تو آپ بھی یہی سمجھتے مگر میں اس لمحے کا ارشمیدس تھا‘ میں اس لمحے لوئی پاسچر‘ نیوٹن اور آئن اسٹائن تھا‘ میں گھر آیا‘ میں نے وضو کیا‘ جائے نماز بچھائی اور سجدے میں گر گیا‘ میں نے اﷲ سے اپنے شرک‘ اپنے کفر اور اپنی بے وقوفیوں کی معافی مانگنا شروع کی اور اس وقت تک سجدے میں گرا رہا جب تک اﷲ تعالیٰ نے مجھے معاف نہ کر دیا‘‘۔
وہ جب یہ کہانی سنا رہے تھے تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے‘ وہ ٹشو سے بار بار آنکھوں کے کونے صاف کرتے تھے اور منہ ہی منہ میں کوئی کلمہ دہراتے تھے‘ مجھے اس کلمے کے صرف دو لفظ سمجھ آتے تھے‘ اﷲ اور شکر‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کو کیسے معلوم ہوا آپ کواﷲ تعالیٰ نے معاف کر دیا ہے‘‘ ان کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی‘ یہ مسکراہٹ بارش کے بعد کی دھوپ جیسی تھی‘ نکھری‘ تازہ اور چمکدار‘ وہ بولے ’’ انسان کا دل اﷲ کا مرکز ہوتا ہے‘ اﷲ آپ کے دل میں رہتا ہے‘ یہ جب آپ سے ناراض ہوتا ہے تو آپ کا دل بھاری ہو جاتا ہے‘ آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے آپ کے سینے پر جیسے کوئی بھاری پتھر رکھ دیا گیا ہو اور آپ اس پتھر کے بوجھ تلے دب رہے ہیں۔
آپ کے اندر جب تک یہ کیفیت رہے آپ جان لیں اﷲ آپ سے ناراض ہے لیکن آپ سے اﷲ تعالیٰ جوں ہی راضی ہوتا ہے آپ کے دل کا بوجھ ختم ہو جاتا ہے‘ آپ کو محسوس ہوتا ہے آپ کے سینے کا پتھر اٹھا لیا گیا ہے اور آپ اندر سے ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگتے ہیں اور میں نے اپنے سینے کا بوجھ اترتا ہوا محسوس کیا‘‘ وہ رکے اور لمبا سانس لیا‘ ان کا سانس ٹھنڈی چائے کے طویل گھونٹ جیسا تھا‘ وہ بولے ’’ میں سجدے سے اٹھا‘ میں نے بیوی سے پوچھا‘ کیا گھر میں کوئی ایسی چیز باقی ہے جسے بیچ کر چند ہزار روپے مل سکیں‘‘ اس نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا‘ اس کی نگاہوں میں تاسف تھا‘ وہ ٹھیک سوچ رہی تھی کیوںکہ میں پچھلے چھ ماہ میں گھر کی ہر قیمتی چیز بیچ چکا تھا۔
میری بیوی نے چپ چاپ ہاتھ سے سونے کی چوڑیاں اتاریں اور میرے حوالے کر دیں‘ میں بازار گیا اور میں نے چوڑیاں بیچ دیں‘ مجھے بائیس ہزار روپے ملے‘ میں نے تین ہزار روپے خیرات کر دیے اور انیس ہزار روپے لے کر سوتر منڈی چلا گیا‘ منڈی میں اس دن مندی چل رہی تھی‘ میں نے تین لاکھ روپے کا دھاگہ خرید لیا‘ میں نے 18 ہزار روپے بیعانہ دیا‘ باقی رقم کے لیے تین دن کی مہلت لی‘ ایک ہزار روپے کا کھانا لیا اور گھر آ گیا‘ میں پندرہ سال سے کاروبار کر رہا تھا‘ میں ہر سودے کے بعد پریشان ہوتا تھا‘ میرے دل میں نقصان کی بھانس سی پھنسی رہتی تھی لیکن یہ میری زندگی کا پہلا سودا تھا جس کے بعد میرے اندر شک یا اندیشے کے سانپ نے پھن نہیں پھلایا کیوںکہ مجھے یقین تھا یہ سودا مجھے دوبارہ قدموں پر کھڑا کر دے گا۔
میں نے کھانا اپنے بچوں کے سامنے رکھا تو ان کے آنسو نکل آئے‘ انھیں تین دن بعد کھانا نصیب ہوا تھا‘ ہم لوگ اطمینان سے سو گئے‘ اگلے دن اٹھے تو حقیقتاً ایک نیا دن تھا‘ میرا مال گودام میں پڑا پڑا مہنگا ہو چکا تھا‘ مجھے اسی دکان دار نے پچیس ہزار روپے منافع کی پیش کش کر دی مگر میں نے انکار کر دیا‘ شام تک منافع لاکھ روپے ہوگیا اور اگلے دن ڈیڑھ لاکھ روپے‘ آپ ذرا تصور کرو‘ میں نے صرف اٹھارہ ہزار روپے بیعانہ دیا تھا اور مجھے اس پر ڈیڑھ لاکھ روپے فائدہ ہو رہا تھا‘ میں نے مال بیچ دیا‘ دس ہزار روپے خیرات کی‘ دو ہزار کا کھانا لیا‘ گھر پہنچا اور اگلے دن پانچ لاکھ روپے کا تیار کپڑا خرید لیا۔
میں نے ایک لاکھ روپے ایڈوانس دیے اور باقی ادائیگی کے لیے تین دن کی مہلت لے لی‘ تم یقین کرو گے‘ مجھے اس سودے میں اڑھائی لاکھ روپے بچ گئے مگر یہ منافع اصل منافع نہیں تھا‘ میرا اصل منافع ایک کانٹریکٹ تھا‘ مجھ سے اگلے دن جینز بنانے والی ایک فیکٹری نے سپلائی کے لیے کانٹریکٹ کر لیا‘ اس کمپنی کو امریکا سے جینز کا بہت بڑا ٹھیکہ ملا تھا‘ میں نے چھ ماہ تک انھیں روزانہ کپڑا سپلائی کرنا تھا‘ وہ مجھے ایڈوانس رقم دیتے تھے اور میں انھیں کپڑا سپلائی کردیتا تھا۔
اﷲ تعالیٰ نے کرم کیا اور میں ایک مہینے میں اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا‘ میں نے قرضے بھی ادا کرنا شروع کر دیے‘ میں نے اپنی بیوی کی چوڑیاں بھی واپس کر دیں اور میں زندگی میں پوری طرح بحال بھی ہو گیا اور آج…‘‘ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور بولے ’’ اور میں آج فیصل آباد کا بڑا صنعت کار ہوں‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔
ہمارے درمیان خاموشی کے کئی دور چپ چاپ گزر گئے‘ وہ اس دوران ہاتھ ملتے رہے‘ آسمان کی طرف دیکھ کر اﷲ کا شکر ادا کرتے رہے اور اپنی گیلی آنکھیں صاف کرتے رہے‘ وہ ایک دلچسپ کردار تھے‘ وہ جوانی میں لکھ سے ککھ پتی ہوئے ‘ محل سے فٹ پاتھ پر آئے اور دفتر کی ہر چیز بک گئی اور نوبت فاقوں تک آ گئی مگر انھوں نے پھر 18 ہزار روپے سے دوبارہ اسٹارٹ لیا اور وہ ملک کے بڑے کاروباری بن گئے‘ میں ان سے وہ فارمولا معلوم کرنا چاہتا تھا جس نے انھیں 18 ہزار سے 18 کروڑ اور پھر 18 ارب تک پہنچا دیا اور مجھے انھوں نے یہ کہانی سنا دی۔
میں اب وہ راز جاننا چاہتا تھا مگر ان پر رقت طاری تھی‘ وہ آنکھیں صاف کرتے تھے‘ ہاتھ ملتے تھے اور لمبے لمبے سانس لیتے تھے‘ وہ بڑی دیر تک اس کیفیت میں رہے اور پھر اچانک سر اٹھا کر بولے ’’ میں بھی دراصل اپنے برے وقت میں وہی غلطی کر رہا تھا جو دنیا کے زیادہ تر لوگ کرتے ہیں‘ میں اپنے دوستوں‘ عزیزوں‘ رشتے داروں‘ جاننے والوں اور مخیر حضرات کے پاس جا تا تھا‘ میں ان سے مدد مانگتا تھا‘ میرے کچھ دوستوں نے میری مدد کی بھی مگر برے وقت میں ہر مدد برائی ثابت ہوتی ہے۔
میرا وہ سرمایہ بھی ڈوب گیا یہاں تک کہ میرے جاننے والوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا‘ یہ مجھے دیکھ کر راستہ بدل لیتے تھے یا پھر مجھے پہچاننے سے انکار کر دیتے تھے‘ میں ان کے رویے پر کڑھتا تھا مگر میں پھر ایک دن قدرت کے راز تک پہنچ گیا‘ میں اپنا مسئلہ سمجھ گیا‘ مجھے محسوس ہوا‘ یہ مصیبت اﷲ کی طرف سے بھیجی گئی ہے اور میں جب اس کے حل کے لیے لوگوں کے پاس جاتا ہوں تو اﷲ تعالیٰ مائینڈ کر جاتا ہے‘ یہ کہتا ہے یہ کس قدر بے وقوف انسان ہے‘ یہ آج بھی میرے پاس آنے کے بجائے‘ یہ مجھ سے مدد مانگنے کے بجائے لوگوں کے دروازوں‘ لوگوں کی دہلیزوں پر جا رہا ہے چناںچہ اﷲ تعالیٰ میری سختی میں اضافہ کر دیتا ہے۔
مجھے معلوم ہوا میں جب تک اﷲ کے سامنے نہیں گڑگڑائوں گا‘ میں جب تک اس سے مدد نہیں مانگوں گا میری سختی ختم نہیں ہو گی چناںچہ میں نے وضو کیا اور اﷲ کے در پر ماتھا ٹیک دیا اور اﷲ تعالیٰ نے میرے سر سے مصیبتوں کی دھوپ ہٹا دی‘ اس نے میرے راستے کھول دیے‘‘ حاجی صاحب نے لمبی آہ بھری اور بولے ’’آپ مصیبت میں جب بھی کسی انسان کی طرف دیکھتے ہیں تو اﷲ مائینڈ کر جاتا ہے اور آپ کی مصیبت میں اضافہ ہو جاتا ہے لہٰذا میری نصیحت پلے باندھ لو برے وقت میں کبھی کسی انسان کے دروازے پر دستک نہ دو‘ صرف اور صرف اﷲ سے رجوع کرو‘ تمہاری مصیبت ختم ہو جائے گی‘ یہ قدرت کا بڑا راز تھا اور اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر کرم کیا اور یہ راز مجھ پر کھول دیا‘‘ وہ چلے گئے لیکن جاتے جاتے مجھے بھی ارشمیدس بنا گئے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔
قدرت کا عجیب راز
Facebook Comments