تحریر: انور حسین سمراء، تحقیقاتی صحافی
خیمے کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ کرنا ہو تو واقعہ کربلا پڑھ لیں اور اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو زلزلہ و سیلاب متاثرین سے بات کر لیں. یہ ایک ایسا عارضی مسکن ہوتا ہے جس میں ایک خاندان ایمرجنسی کی صورت میں گزر بسر کرتا ہے اور موسمی حالات سے محفوظ رہتا ہے. 2005 کے زلزلے نے آزاد کشمیر اور اسلام آباد میں تباہی مچائی، لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے، رہائش اور کھانے پینے کی اشیاء کی قلت ہو گئی. امداد کا نقارہ بجا تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے جذبہ خیر سگالی کے تحت ایک لاکھ سے زیادہ خیمے عطیہ کرنے کا اعلان کیا کیوں نہ کرتے ہم نے تو مشرف کو وردی میں ایک درجن بار صدر منتخب کروانے کا حلف دیا ہوا تھا۔۔ چیف سیکرٹری کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی اور انہوں نے یہ ٹاسک اپنے سٹاف افسر سیکرٹری آئی اینڈ سی کے ذمہ لگا دیا. پیپرا رولز معطل کر دیئے گئے. قصور میں اعلی کوالٹی سے لیکر بدتر کوالٹی کےخیمے تیار کر نے کا کاروبار عام تھا جو عام حالات میں ملک کی ضرورت پوری کر رہا تھا. ان مینوفیکچررز اور سپلائرز سے خیمے خریدنے کا معاہدہ کیا گیا. خیموں کی پہلی کھیپ متاثرین کو سپلائی کر دی گئی. زلزلہ متاثرین نے شکایت کی کہ ہلکی بارش میں خیمے ٹپک جاتے ہیں. راقم کیونکہ اعلی سول سروس کے امتحان میں ناکامی کے بعد رحمت علی رازی (مرحوم) کی مشاورت سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہو چکا تھا اور سول و پولیس بیوروکریسی کی رپورٹنگ کرتا تھا. اگرچے ان مہا کلاکار وں کی وارداتوں پر کام کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا لیکن رازی صاحب کی راہنمائی حاصل تھی۔۔ خیمے ٹپکنے اور غیر معیاری ہونے کی شکایات پر راقم سیکرٹری آئی اینڈ سی کے پاس حقائق جاننے کے لیا گیا. بات شروع کہ کہ فراہم کیے جانے والے خیمے غیر معیاری ہیں اور ان کی خریداری میں موصوف کی ٹیم نے بھاری کمیشن لیا ہے. صاحب بہادر یہ سن کر چھت کو لگے اور کہا تم جانتے ہو میں خاندانی رئیس اور امیر آدمی ہوں، ہاورڈ سے پڑھا ہوا ہوں اور یہ جو میں نے ٹائی لگائی ہے ہارورڈ یونیورسٹی نے دی ہے اور میرا سگار بھی باہر سے آتا ہے اور تم ہو میرے پر کمیشن لینے کا الزام لگا رہے ہو. انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کل میں اپنی جائیداد کی فردیں لے آئو ں گا اور آ کر چیک کر لینا میں جدی پشتی امیر آدمی ہوں میرا والد بھی سول سرونٹ تھا اور زیر لب کہا کہ پینڈو کہیں کے۔ میں نے عرض کیا میں نے کمیشن لینے کی بات کی ہے آپ آگ بگولے کیوں ہو گئے اگر آپ کا دامن صاف ہے تو سلیقے سے میرے الزام کا جواب دے دیتے؟؟۔۔ وہ ناراض ہو گئے تو میں نے سوچا کہ آپ لوہا گرم ہے دیگر ان کی کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر بھی موقف لی لیا جائے. میں نے کہا کہ آپ نے اپنے دفتر کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بیگم صاحبہ کو الحمراء کلچرل کمپلیکس قزافی سٹیڈیم میں عمارت کی غیر قانونی توڑ پھوڑ کر کے آرٹ گیلری بنوا کر دی اور اب کرایہ بھی نہیں دیا جارہا. موصوف کی حالت غیر ہونے لگی اور کوئی جواب دیے بغیر مجھے دفتر چھوڑ جانے کا کہا اور میں نے اس میں عافیت سمجھی۔۔ وہ دن اور آج کا دن دوبارہ نہ ملاقات نہ رابطہ ہوا. تحقیقات اور ذرائع کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق پنجاب حکومت نے ایک لاکھ 25 ہزار سے زائد مختلف سائز کے خیمے مختلف لوگوں سے خریدے تھے اور زلزلہ زدگان کو فراہم کیے تھے. مبینہ طور پر 3 سے 5 ہزار ایک خیمے سے کمیشن نقدی وصول کیا گیا اور کوالٹی پر سمجھوتہ ہوا.۔۔
اسٹوری چھپی اور چھپی ہی رہ گئی۔۔ موصوف بابوؤ پچھلے چند سال سے وفاقی سیکرٹری کے مسند پر براجمان ہیں اور پنجاب کے لاٹ صاحب لگنے کے لئے کوشاں رہے لیکن لاٹری نہ نکلی.۔۔فواد حسن فواد نے ان کی نااہلی اور بری شہرت پر گریڈ 22 میں پروموٹ نہ کیا لیکن شفافیت اور میرٹ کے دعوے دار کپی تان نے ان کو گریڈ 22 بھی دیا اور اہم وفاقی وزارت سے بھی نوازا۔۔ اب جب چوہدری پنجاب کے مسند حکومت پر دوبارہ بیٹھے تو اس بابو کی بطور چیف سیکرٹری لانے کی وفاقی حکومت کو سفارش کی لیکن ضمنی الیکشن آڑے آگئے ، وگرنہ موصوف کو ایک بار پھر سے خیمے خریدنے کا سنہری مو قع میسر ہو جانا تھا. اب چونکہ یہ کام پی ڈی ایم اے کرتا ہے وہاں بھی سابق ایس ایم بی آر جس کو ن لیگ نے مبینہ کرپشن، بر شہرت اور نالائقی کی وجہ سے صوبے سے سرنڈر کیا تھا کا فنانسر (ثانی) نامی اہلکار پرکیورمنٹ میں واردات ڈالنے کا ماہر بغلیں بجاتا ہوا یہ فریضہ مستند طریقے سے ادا کررہا ہے اور موجودہ لاٹ صاحب سیلاب کی تباہ کاریوں میں مگرمچھ کے آنسوؤں بہا کر ٹویٹر پر عوام سے تعاون کی اپیل کرتے پائے جارہے ہیں. اب اللہُ جانے پنجاب حکومت کی طرف سے متاثرین کی بحالی و امداد کے لئے جاری 5 ارب کے فنڈز کا بٹوارہ کیسے ہوگا یہ وقت بتائے گا. سیلاب زدگان کے فنڈز سے اب نئی لگژری گاڑیاں و لیپ ٹاپ بھی آئیں گی اور دفاتر کی رینوویشن بھی ہوگی۔۔( انور حسین سمراء، تحقیقاتی صحافی)۔۔