تحریر: سلطان مرزا ،جڑنوالہ۔۔
اتائیت جس پر ہیلتھ کئیر کمیشن بننے کے بعدبہت سختی دکھائی گئی اتنی کرونا وائرس پر نہیں دکھائی جتنی اتائیت کے خلاف دکھائی گئی،ہم آئے روز ہیلتھ کئیر کمیشن کی طرف سے بے شمار اتائیوں کے اڈے سیل اور سزاؤں کے متعلق خبریں دیکھتے ہیں، دراصل دیکھنا تو یہ ہے کہ ہیلتھ کیئر کمیشن کی کارروائیوں کے بعداتائیوں کے اڈے کتنے فیصد کم ہو گئے اور دیکھنا یہ بھی ہے کہ واقعی اتائیت ختم ہوگئی یا اس کے بر عکس اتائیت منظم ہوئی ہے، اوردیکھنا یہ بھی ہے کہ ہیلتھ کئیر کمیشن کے ایس او پیز پر کتنے فیصد کلینک اور پرائیویٹ ہسپتال عمل کررہے ہیں، کیا رجسٹرڈ کلینک اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں واقع کوالیفائیڈ ڈاکٹر اور کوالیفائیڈ عملہ موجود ہے،کیونکہ اکثر جگہوں پرکوالیفائیڈ ڈاکٹر و عملہ کی آڑ میں اتائی ان کا علاج معالجہ کرتے ہیں جن کا مقصد مسیحائی نہیں بلکہ پیسے بٹورنا ہوتا ہے، ابھی چند روز قبل جڑانوالہ کے صحافیوں نے جڑانوالہ شہر کے وسط میں واقع ہیلتھ کئیر کمیشن سے رجسٹرڈ شدہ ہسپتال کے متعلق خبریں شائع کی کہ اس ہسپتال میں ایک عورت جو کہ ڈاکٹر کی سیٹ پر بیٹھ کر مریضوں کا چیک اپ کرتی ہے اور تو اوروہ اپریشن کرنے میں بھی بہت ماہر ہے جبکہ خبر کیساتھ جعلی لیڈی ڈاکٹر کی تصویر بھی نمایاں دکھائی گئی اور خبر میں ہیلتھ کئیر کمیشن کے ایس او پیز کی خلاف ورزی کے متعلق بھی بتایا گیا، صحافیوں نے اس خبر کو سوشل میڈیا کی زینت بھی بنایا، سوشل میڈیا پر یہ خبر آتے ہی اس ہسپتال کے مالک نےسوشل میڈیا پر اپنے تاثرات میں خبر کو غلط یا درست کہنے کی بجائے اور اپنا قبلہ درست کرنے کی بجائے صحافیوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے، حالانکہ صحافیوں نے اس کے خلاف تو خبریں شائع نہیں کی بلکہ اس کے ہسپتال کے عملہ جو کہ نان کوالیفائیڈ اور عام مریضوں کے علاج معالجے کے ساتھ ساتھ سرجری کرنے میں اپنا ہنر دکھاتاہے ان کو ارباب اختیار کی نذرکیا لیکن موصوف نے سوشل میڈ یا پر اس خبر کے متعلق خوب غصہ نکالا اور جب کچھ نا بنا تو بیچارے صحافیوں کو ڈڑانے دھمکاتے ہوئے صحافیوں پر من گھڑت الزامات عائد کر کے مختلف جگہوں پر درخواست بازی شروع کر دی، جیسے یہ صحافی نہیں بلکہ غنڈے یا کوئی ریکارڈ یافتہ کریمنل ہیں، موصوف نے درخواست بازی سے قبل سوشل میڈیا پر اور مزید صحافی کے سوال پر جو اپنا مؤقف دیا بہت دلچسپ ہے موصوف کہتا ہے کہ میں کوالیفائیڈ ڈاکٹر ہوں اوربعض صحافی مجھ سے مفت میں الٹرا ساؤنڈ، مفت میں علاج اور مفت میں ادویات و دیگر سہولیات لیتے ہیں لیکن میں انہیں منتھلی نہیں دے سکتا، اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ جو بھی ہو میں اپنے ہسپتال کے خلاف لکھنے والوں کے لئے چٹان بن جاؤں گا دیکھتا ہوں کہ یہ کیسے میرے ہسپتال کے متعلق لکھتے ہیں، موصوف مزید کہتے ہیں کہ وہ دیکھو سامنے ڈی ڈی ایچ او کا آفس ہے آج تک اس آفس کے کسی فرد کی جرات نہیں ہوئی کہ وہ میرے ہسپتال کی طرف رخ کریں آپ کون ہوتے ہو،ہمارا ان سے سوال تھا کہ اگر آپ کے ہسپتال میں ہیلتھ کئیر کمیشن کے قواعد و ضوابط پر عمل ہو رہا ہے اور وہی عملہ آپ کے ہسپتال میں کام کر رہا ہے جس کی تفصیل آپ نے محکمہ ہیلتھ کیئر کمیشن کو دی تو پھر آپ کے بقول کہ میں اب ان کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہونگا اور فلاں فلاں تو آج سے قبل کس خوف اور ڈر کے صحافیوں کو تمام تر سہولیات فری میں دیتے رہے کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نا ہوئی اور ان کی تفصیل ہی بتا دو جو آپ سے ڈرا دھمکا کر سہولیات لیتے رہے،مزید یہ کہ صحافیوں نے آپ کے خلاف تو لکھا ہی نہیں انہوں نے توہسپتال کے متعلق لکھاجو آپ کے ہسپتال میں معاملات قوانین کے خلاف چل رہے ہیں ان سے پردہ اٹھا یا گیا ہے کہ واقع بقول آپ کے بھی کہ ڈی ڈی ایچ او جڑانوالہ کے دفتر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر آپ کاتاج ہسپتال واقع ہے جس میں نا ن کوالیفائیڈ لیڈ ی ڈاکٹر اورعملہ کی حالت زار پر صحافیوں نے ارباب اختیار کے آگے رونا رویا ہے کہ جناب والا سب اچھا اور سب اچھا کہنے سے کچھ نہیں بنے گا کچھ تو قوانین پر عملدرآمد کیجئے اور کروائیے، جناب کچھ تو بھولی بھالی عوام کا بھی خیال رکھیئے کہ جو آپ کے ہسپتال کے باہر لگے بورڈ پر قابل کوالیفائیڈ ڈاکٹرکا بورڈ پڑھ کر اندھے اعتماد کی طرح ان پراپنا قیمتی مال نچھاور کرتی ہے لیکن جناب موصوف اپنی غلطیوں کا ازالہ کرتے نوٹوں کی چمک میں اندھا دھند حق بات کہنے اور لکھنے والوں کے خلاف اپنے آپ کو چٹان بنانے کا دعوہ کرتے نظر آتے رہے اورجب موصوف کے ہسپتال میں ہیلتھ کیئر کمیشن کے ایس او پیز کی بات کی تو موصوف مزید آگ بگولہ ہو گیا اور کہا کہ تم صحافی کون ہوتے ہوں مجھے ایس او پیز بتانے والے، میراہسپتال ہے اور ایس او پیز بھی میرے ہو نگے، میں اپنی یونین کو ایک کال کرو تو جڑانوالہ کے تمام کلینک اور ہسپتال بند ہو سکتے ہیں اور صحافیوں کو حق سچ لکھنے کا مزا چکھوا سکتا ہوں،میں مزید سوچ میں پڑ گیا کہ صحافی تو اپنے قلم سے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور صحافی بیچارہ تو قانون کی بالادستی چاہتا ہے لیکن یہ موصوف ڈاکٹر کیا یہ واقعی عوام کا مسیحا ہے،میں تو موصوف کے الفاظ سن کر ہی حیران ہو گیا کہ یہ کیساانسانوں کا مسیحاہے کہ جو اپنے متعلقہ آفسران اور محکمہ کے متعلق اتنی جرات رکھتا ہو تو وہاں بیچارہ صحافی کیا کرے اور ارباب اختیار کو کیا رونا دکھائے، لیکن اس کی بات درست ہے کہ سامنے ڈی ڈی ایچ او کا آفس ہے لیکن آج تک اس کی رپورٹ کیوں نہیں ارباب اختیار تک پہنچی، حالانکہ ڈی ڈی ایچ او کی زمہ داری بنتی ہے کہ اتائیت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ ہیلتھ کئیر کمیشن کے قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بھر پور قانونی کاروائی کرائے لیکن عرصہ دراز سے یہی ہسپتال اتائیت کے زیر سایہ پروان چڑھتا رہا آج تک کسی بھی محکمہ کے فرد نے کیوں نا ادھر کا رخ کیا، کیا غریب کوالیفائیڈ کے بورڈ کے نیچے کیاعطائیوں کو اپنے علاج معالجے کے لئے خون پسینا نچھاور کرتا رہے اور ارباب اختیار کے نمائندے صرف کاغذی کاروائیوں تک محمدود، آخر ایسا کیوں۔(سلطان مرزا،جڑانوالہ)
(بلاگر کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔