تحریر: علی حسن۔۔
پاکستان کی سیاست کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔ ساری سیاست ذاتیہ مقاصد اور مفادات کے تابع رہتی ہے۔ شہباز شریف چوہدری شجاعت حسین کے گھر پہنچ گئے۔ آصف زرداری نے حمزہ شہباز شریف کو اپنے گھر ان کے اعزاز میں ضیافت کو اہتمام کی۔ یہ آنا جانا اور ملاقاتیں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ لیکن یہ وہ ہی لوگ ہیں نا جو ایک دوسرے کی جانوں کے در پے تھے ۔ نواز شریف کا فرمان تھا کہ چوہدری شجاعت سے تعلقات اس حد تک ختم کی مرنے جینے میں بھی نہیں جانا ہے۔ چوہدری برادران اور نواز شریف کے درمیاں تعلقات یوں تو پہلے ہی سے خراب تھے کیوں کہ چوہدری برادران سمجھتے تھے کہ نواز شریف نے ان کے ساتھ وف نہیں کی ہے اور جنرل مشرف نے نواز شریف کو اقتدار سے علحدہ کیا اور چوہدری برادران نے جنرل کی حمایت حاصل کر کے حکومت میں شمولیت اختیار کر لی تو نواز شریف کو انتہائی غصہ آگیا کہ ان کی رضا مندی کیوں حاصل نہیں کی گئی۔ لیکن شہباز شریف کیس بھی حالت میں نواز شریف کی رضامندی کے بغیر چوہدری شجاعت کی صحت اور خیریت کے بارے میں آگاہی لینے نہیں گئے ہوں گے۔ اب عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر چوہدری برادران سیاسی طور پر بٹ گئے ہیں۔ نواز شریف پرویز الاہی کو پنجاب کی وزارت آعلی دینے پر تیار نہیں تھے تو پرویز الاہی عمران خان سے جاملے لیکن شجاعت متحدہ حزب اختلاف کے ساتھ ہی رہے۔ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی وفاق میں دو وزارتیں حاصل کر لیں۔ ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف کس انداز میں گفتگو کیا کرتے تھے ۔ ایسے انداز تو میراثی بھی اختیار نہیں کرتے۔
آصف زرداری اور حمزہ کے درمیاں ملاقات کا پس منظر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین و سابق صدر آصف علی زرداری نے حمزہ شہباز سے پنجاب کے اقتدار میں شراکت کے حوالے سے تمام مطالبات تسلیم کر الئے ہیں۔ پنجاب کابینہ میں پیپلز پارٹی کے 5 وزرا، 2 مشیر اور وزیر اعلیٰ کے 2 معاون خصوصی ہوں گے، 10 سے زائد وزرا اسی ہفتے حلف اٹھائیں گے۔پنجاب کابینہ میں وزرا کے شامل کیے جانے کے بدلے میں پیپلز پارٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی پرویز الہٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر مکمل حمایت کرے گی۔ آصف زرداری کا ہدف صرف اپنے لوگوں کے لئے اقتدار میں شراکت ہی نہیں ہے بلکہ وہ مستقبل میں ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے لئے نشستوں کا حصہ مقرر کرنے کے طالب بھی ہیں۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی اس بات پر آمادہ ہی نہیں تھے کہ نشستوں کی بندر بانٹ کی جائے۔ مریم سمجھتی ہیں کہ پنجاب میں ن لیگ مقبول ہے اور اسے ہی کسی بھی طرح دو تہائی اکثریت حاصل کرنا چاہئے۔ ابھی تو عام انتخابات دور ہیں۔ لیکن اس مسلہ پر دونوں جماعتوں کے درمیاں مستقبل میں داﺅ پیچ جاری رہے گا۔ زرداری، حمزہ ملاقات کے دوران بھی ابھی تو ضمنی انتخابات مشترکہ طور پر لڑنے پر اتفاق بھی ہوا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان فیصلوں پر مریم کا کیا رد عمل ہوتا ہے۔ ن لیگ کے پالیسی فیصلوں پر مریم کی اجارہ داری ہی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک نواز شریف کوئی اور فیصلہ نہیں کرتے ہیں۔ مریم خود بھی وزیر آعظم کے عہدے کی مظبوط ترین امیدوار ہیں بشرط وہ کلئرینس حاصل کر پائیں۔
سابق صدر آصف زرداری کے سے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے ایک وفد کے ہمراہ بلاول ہاﺅس لاہور میں ملاقات کی جس میں آصف زرداری نے حمزہ شہباز کو منصب سنبھالنے پرمبارکباد دی اور ورکنگ ریلیشن شپ مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماﺅں نے عمران خان کے بقول ان کے غیر جمہوری ہتھکنڈوں کا مل کر مقابلہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا اورضمنی انتخابات مشترکہ طور پر لڑنے پر اتفاق کیا۔حمزہ شہباز کا کہنا تھاکہ عوام کی خدمت کے سفر میں ایک ہیں اورایک رہیں گے، پیپلز پارٹی اتحادی جماعت ہے، ساتھ لیکر چلیں گے۔انہوں نے کہا کہ ورکنگ ریلیشن شپ مزید بہتر بنانے کیلئے مشاورت جاری رہے گی، ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا اتحاد عوام کی خدمت کیلئے ہے، سیاست کو عبادت سمجھتا ہوں اور اجتماعی فیصلوں کا قائل ہوں۔اس موقع پر زرداری کا کہنا تھاکہ ہم نے اتحاد کو مضبوط بنانا ہے اور اس کے ذریعے ہی عوام کو درپیش گھمبیر چیلنجز کا حل ممکن ہے۔انہوں نے کہا کہ تمام فیصلے مشاورت سے کئے جانے چاہئیں ، صوبے اور عوام کی بہتری کیلئے اتفاق رائے قائم کریں گے۔ ملاقات کے بعد سابق صدر کی جانب سے مہمان وفد کے اعزاز میں ظہرانہ بھی دیا گیا۔ اس مرحلے پر انتخابات کے فوری انعقاد کے خلاف آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے نواز شریف سے اپنا موقف تسلیم کر ا لیا ہے۔ لیکن شہباز شریف کی حکومت کوئی بھی حتمی فیصلہ کرنے سے ہچکچاتی ہے کیوں کہ اسے خطرہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے ، کہیں ویسا نہ ہوجائے “۔ حالانکہ ”ایسا نہ ہو جائے، ویسا نہ ہوجائے “ تو ہونا ہی ہے۔ یہ پاکستانی سیاست ہے۔ اس میں انسان ہی معجزہ دکھاتے ہیں اور انہونی کو ہونی بنا دیتے ہیں۔ یہ سارے اقدامات عظیم تر قومی مفاد میں ہی آٹھائے جاتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے کہ وہ تمام معمالات اپنی مقبولیت کے حوالے سے دیکھتی ہیں۔ وہ دور رس نتائج کے فیصلے کرنے سے ڈگمگاتی ہیں۔ قومی سیاسی جماعتوں کو ملکی اور قومی مفادات کے حوالے سے فیصلے کرنے چاہیے خواہ اس میں انہیں کسی فوری انتخابات میں ناکامی ہی کیوں نہ ہو۔ سخت فیصلوں کی کڑوی گولیاں تو اسی جماعت یا جماعتوں کو کھانی پڑے گی جن کے ہاتھوں میں ملک کا اقتدار ہو۔ آصف زرداری کو نواز شریف نے اپنے محل جاتی امراءمیں دعوت پر بلایا تھا جس میں ستر طرح کی ڈشین تیار کرائی گئی تھیں۔ یہ وہ ہی دعوت تھی جس میں زرداری نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی آنے والی نسلوں کے درمیاں بھی تعلقات رہیں۔ انہوں نے بلاول اور مریم کے نام بھی لئے تھے ۔ اس کے بعد ایک موقع پر زرداری نے نواز شریف کے خلاف انتہائی سخت بیان دے دیا تھا ۔ پھر ایک وقت آیا کہ پی ڈی ایم میں ساتھ ساتھ بیٹھنے والوں مریم اور بلاول نے ایک دوسرے کے خلاف سخت الفاظ پر مبنی بیانات جاری کئے تھے ۔ مولانا فضل الرحمن نے ان کے درمیان تعلقات دوبارہ استوار کرائے تھے۔ پھر ایک وقت آیا شہباز شریف نے بیان دیا تھا کہ آصف زرداری کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالیں گے۔ انہوں سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ بہر حال عوام مانے یہ نہ مانیں ، یہ قومی سیاسی رہنماءسب کچھ عظیم تر قومی مفاد میں کر رہے تھے اور اب جو کچھ ہو رہا ہے یا کیا جارہا ہے وہ بھی عظیم تر قومی مفاد میں ہے۔
عظیم تر قومی مفاد کے دورانیہ میں ہی وفاقی وزیر خزانہ و محصولات مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ نجکاری کے عمل کو آگے بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ اسی سے ہمارے بیشتر خسارے کم یا ختم ہو جائینگے۔ قدم قدم پر بس ایک ہی فکر ہے کہ ملک کیسے ترقی کرے گا۔ اسی درمیاں معروف سرمایہ دار، صنعتکار میاں منشاءکا یہ بیان آگیا کہ خواہ کچھ ہی ہو، کچھ ہی کرنا پڑے ملک میں ڈالر لانا ہوگا۔ اور پھر انہوں نے تجویز پیش کر دی کہ دنیا کے کئی ممالک میں ایئر پورٹ نجی شعبہ کے پاس ہے پاکستان میں بھی لاہور کے ایئر پورٹ کی نجکاری کی جاسکتی ہے۔ میاں منشاءوہ ہی حجرت ہیں جنہیں نواز شریف کے ایک دور میں مسلم کمرشل بینک معاشی ماہرین کے خیال میں ارزان داموں پیش کر دیا گیا تھا۔ مسلم کمرشل بنک جس کا نام مسلم کو ختم کر کے ایم سی بی رکھ دیا گیا ، کی ملکیت کے بعد میاں منشاءکی معاشی ترقی میں پیش بہا اضافہ ہوا۔ پاکستان میں اب تک ہونے والی نجکاری سے پاکستان کو کیا حاصل ہوا ہے اور کیا اس کے نتیجے میں پاکستان اپنے قرضہ واپس کرنے میں کس حد تک کامیاب رہا ہے۔ نجکاری کمیشن کی سربراہی کرنے والے حضرات تو روشنی ڈالنے سے ہچکچاتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ وزارت خزانہ ہی اس پر روشنی ڈالے تو قوم پر قومی مفاد میں اس کا احسان ہوگا۔ روشنی تو نیب کو بھی اس گھتی کو سلجھانے پر ڈالنا ہوگی کہ نجی شعبہ میں معمولی معاوضہ پر ملازمت کرنے والا شخص مقصود کس طرح دبئی پہنچ کر اپنا ”علاج“ کرا رہا تھا جہاں سے ان کے انتقال کی خبر آئی ہے۔ کیا نیب ان سے یہ معلومات حاصل کر لی تھیں کہ ان کے بینک آکاﺅنٹ میں چار ارب سے زائد رقم کیوں کر جمع ہو گئی تھی اور اس کے خیال یا معلومات میں کس نے ان پر یہ مہربانی کی ہوگی کہ وہ ارب پتی بن گئے تھے ؟ اگر نیب مرحوم سے معلومات حاصل نہیں کر سکا تھا تو اب تو یہ سارے راز مقصود کے ساتھ ہی دفن ہو جائیں گے۔ بعض لوگوں نے تو اس کی موت پر سکون کا سانس لیا ہوگا۔ اسی طرح جیسے جب جب سرکاری دفاتر میں آتش زدگی کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور ریکارڈ جل جاتا ہے تو کچھ سکھ کا سانس لیتے ہیں۔(علی حسن)
![chaar hurf | Imran Junior](https://imranjunior.com/wp-content/uploads/2020/03/how-to-write.jpg)