تحریر: محمد بلال غوری۔۔
حکومتوں کی کارکردگی جانچنے کے جہاں اور کئی طریقے ہیں وہاں ایک کسوٹی یہ بھی ہے کہ اعزازات،تمغے اور ایوارڈز دینے کا طریقہ کار کیا ہے؟کن افراد کو کس طرح کی خدمات پر سول ایوارڈز عطا کئے جاتے ہیں۔پاکستان میں سول ایوارڈزکی تقسیم پرہمیشہ سے ہی سوالات اُٹھائے جاتے رہے ہیں لیکن پی ڈی ایم کی حکومت نے جاتے ہوئے جس طرح کی لوٹ سیل لگائی اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔یقیناً چند افراد کو میرٹ پرایوارڈز دینے کا اعلان کیا گیا ہوگا تاکہ یہ تاثر دیا جاسکے کہ محض خوشامدیوں کو نہیں نوازاگیا مگر مجموعی طور پر اس بار سب ریکارڈ توڑ دیئے گئے۔تاثر تو یہ تھا کہ تحریک انصاف کے دورِحکومت میں میرٹ کی دھجیاں بکھیری گئیں، یہی وجہ ہے کہ جب شہبازشریف وزیراعظم بنے تو ماضی کے تجربات کی روشنی میں ان سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ میرٹ کی پاسداری کریں گے ۔لیکن شہبازشریف نے یہ مغالطہ دورکردیا۔ان کے دور میں نہ صرف خوشامدیوں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا بلکہ سول ایوارڈز کو بھی بے وقعت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔واضح رہے کہ ہمارے ہاں سول ایوارڈز آئین کے آرٹیکل 259(2)کے تحت صدر مملکت عطا کرتے ہیں مگر کسے ایوارڈدیا جائے گا یہ فیصلہ کیبنٹ ڈویژن کے زیر انتظام تشکیل دی گئی ایک کمیٹی کرتی ہے۔یعنی اچھے یا برے فیصلوں کی ذمہ داری حکومت وقت پر ہی عائد ہوتی ہے۔بالعموم یوم آزادی 14اگست کے موقع پر ایوارڈز دینے کا اعلان کیا جاتا ہے اور پھر یوم پاکستان یعنی 23مارچ کو ان شخصیات کو ایوارڈز دیئے جاتے ہیں۔ جب تحریک انصاف کی حکومت تھی تو 2019ء میں116ش خصیات کو ایوارڈز دینے کا اعلان کیا گیا، 2020ء میں 184افراد کو ایوارڈز سے نوازا گیا جبکہ 2021ء میں 126شخصیات کو سرکاری اعزازات دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ یعنی تین سال کے دوران مجموعی طور پر 426 افراد کو ایوارڈز دیئے گئے مگر پی ڈی ایم کی حکومت آنے کے بعد 2022ء میں 225جبکہ 2023ء میں 696شخصیات کو ایوارڈز سے نوازا گیا۔ گویا 2016ء سے 2021ء تک 6سال میں 826ایوارڈز دیئے گئے مگر پی ڈی ایم کی حکومت نے 2سال میں ہی 921شخصیات کو ایوارڈز کیلئے نامزد کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا۔اگر سول ایوارڈز کے حوالے سے ہمسایہ ممالک سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان بنگلہ دیش اور بھارت کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔بنگلہ دیش میں گزشتہ 8سال کے دوران صرف 314شخصیات کو ایوارڈز دیئے گئے۔بھارت جو آبادی کے حساب سے پاکستان سے بہت بڑا ملک ہے ،وہاں 2014ء سے 2023ء تک 927سول ایوارڈ تقسیم کئے گئے مگر ہمارے ہاں دو سال میں ہی 921ایوارڈز بانٹ دیئے گئے ۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ سول ایوارڈز کی اس بے توقیری کے بعد قدآور علمی و ادبی شخصیات کی طرف سے بطور احتجاج بائیکاٹ کیوں نہیں کیا جاتا؟ممکن ہے یہ میری لاعلمی یا کم علمی ہو مگر ماضی قریب میں جن شخصیات کی طرف سے ایوارڈلینے سے انکار کیا گیا،انہیں انگلیوں کی پوروں پر گنا جا سکتا ہے۔بزعم خود فیلڈ مارشل ایوب خان کا دور ہو یا پھر جنرل ضیاالحق کا زمانہ ،اظہار رائے کی آزادی میسر نہیں رہی مگر صحافی ،ادیب اور شاعر نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ ان فوجی حکمرانوں سے تمغے وصول کرتے رہے۔سرائیکی شاعر اقبال سوکٹری اکلوتی شخصیت ہیں جنہوں نے فوجی حکمراں کے ہاتھوں تمغہ حسن کاکردگی لینے سے انکار کیا۔بینظیر بھٹو کے دور میں ضمیر نیازی نے اخبارات پر پابندی کے خلاف بطور احتجاج تمغہ حسن کاکردگی لینے سے معذرت کرلی۔احمد فراز نے جنرل پرویز مشرف سے ہلال امتیاز وصول تو کیا لیکن 2006ء میں بلوچستان میں فوجی مداخلت اور نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بطور احتجاج واپس کردیا۔شاید نسیم زہرہ اور زاہدہ حنا نے بھی جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں تمغہ حسن کاکردگی لینے سے انکار کردیا تھا۔سندھی ادیب عطا محمد بھانبروجن کے بیٹے راجہ داہر جبری طور پر لاپتہ ہوگئے تھے ،ان کے گم شدہ بیٹے کی لاش برآمد ہوئی تو انہوں نے تمغہ امتیاز لوٹا دیا۔ایک اور سندھی دانشور تاج جویو نے 15اگست 2020ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کاکردگی لینے سے انکار کردیا کیونکہ ان کے بیٹے سارنگ جویو کو11اگست کو یعنی ایوارڈ دینے کا اعلان کئے جانے سے تین دن پہلے نامعلوم افراد نے اغوا کرکے جبری طور پر لاپتہ کردیا۔معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کو ان کی وفات کے بعد 2020ء میں سول ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا تو ان کی بیٹی ویرتا علی اُجن نے صحافیوں اور ادیبوں کے خلاف ریاستی جبر ناروا کے خلاف بطور احتجاج یہ ایوارڈ لینے سے انکار کردیا ۔انہوں نے کہا کہ اگر ان کی والدہ حیات ہوتیں تو وہ بھی یہی کرتیں کیونکہ انہوں نے ساری زندگی انصاف اور مساوات کے لئے جدوجہد کی۔ اس ضمن میں ایک اور مثال پرویز ہود بائی کی ہے۔2001ء میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے انہیں ستارہ امتیاز دینے کا اعلان کیا مگر انہوں نے یہ ایوارڈ لینے سے انکار کردیا۔پرویز ہود بھائی وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے یہ کہہ کر ایوارڈ لینے سے انکار کیا کہ ان سول ایوارڈ کی نہ تو کوئی ساکھ ہے اور نہ ہی کوئی وقعت و اہمیت ۔
میرا خیال ہے کہ یا تو اہل قلم ان سول ایوارڈز کی لوٹ سیل پر تنقید کرنا چھوڑ دیں یا پھر یہ طے کرلیں کہ جب تک ان تمغوں اور اعزازات کی تقسیم کا موزوں اور مناسب طریقہ کار طے نہیں کیا جاتا تب تک کوئی ادیب ،دانشور،مورخ،محقق یا صحافی یہ ایوارڈ وصول نہیں کرے گا۔ یعنی قلمی مزاحمت کا راستہ اختیار کریں یا پھر مکمل مفاہمت کی دہلیز پر سجدہ ریز ہو جائیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔