تحریر: ڈاکٹر مجاہد منصوری
قارئین کرام ! آپ جانتے ہیں ’’آئین نو‘‘ میں اس امر کی اپنی سی کوششیں تو کی جاتی ہیں کہ موجود اولین قومی ضرورتوں کی نشاندہی کر کے جائزہ لیا جائے کہ یہ کس حد تک پوری ہو رہی ہیں، یہ بھی کہ ظہور پذیر پر نظر رکھی جائے کہ یہ کتنی واضح ہیں اور ہم بحیثیت قوم انہیں کیسے ایڈریس کر رہے اور یہ کہ مستقبل قریب میں انہیں پورا کرنے کے کیا تقاضے ہیں؟ جب کسی بھی قوم کا تعین اس کی اپنی ذمے داریوں کے حوالے سے کرتے ہیں تو اس کو حکمران طبقے اور ’’عوام الناس ‘‘ میں تقسیم کرنا ہی پڑتا ہے کہ ہر دو کے اجتماعی رویّے اور اہلیت سے ہی قومیں بنتی اور بگڑتی ہیں۔ ہر قوم مخصوص طبقوں میں منقسم ہوتی ہے اور یہ طبقے اور شعبے تمام اقوام کے مشترکہ ہی ہیں جن میں سے دو نے بہت زیادہ اور حساس اہمیت اختیار کر لی ہے، فوج اور ذرائع ابلاغ کا نظام۔ فوج تو زمانہ قدیم سے ہی ریاست کے لئے اہم تھی اور بادشاہت و حکمرانی صدیوں سے اس سے جڑی رہی، لیکن آخری چار صدیوں میں عالمی انسانی معاشرے کو معجزاتی نوعیت کی ملنے والی کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کی معاونت نے تو انسانی معاشرے کو تیزی سے جلاء بخشنے میں جو کردار ادا کیا، پوری انسانی تاریخ اور اس میں جنگوں، رکاوٹوں، مشکلات اور اس کے دیگر مایوس کن پہلوئوں کا جائزہ لیا جائے تو پرنٹنگ مشین کی ایجاد کے نتیجے میں پیشہ صحافت کا ظہور، پھر اسی کے زور پر قومی ابلاغ کا نظام تشکیل پا کر اس کا بقول ابراہام لنکن ’’ریاست کا چوتھا ستون‘‘ بن جانا انتہائی دلچسپ مثبت اور اثر انگیز ہے۔ ہوا یہ ہے کہ 20ویں صدی میں وسیع تر تباہی پھیلانے والے اسلحے (WMDS)نے آج کے مہذب انسان کو خوفزدہ کر کے ان کے استعمال میں محتاط تو کر دیا لیکن تعلیمات قرآن کے مطابق انسان میں خیر کے ساتھ ساتھ شر کی سرشت تاقیامت موجود رہے گی۔ سو آج کا انسان، بشکل عالمی سیاست کی شیطانیت ’’طاقت کے توازن‘‘ کو خوف کے توازن میں تبدیل کر کے برقرار رکھتے ہوئے تباہ کن ہتھیاروں کو ضائع کرنے پر آمادہ تو نہیں لیکن اس نے اپنے اہداف کے خلاف انوکھی طرز کی جنگیں تراش لی ہیں۔ ان میں ذرائع ابلاغ سب سے بڑا ہتھیار ہے اس کے بعد خفیہ اداروں کا دفاع اور حملوں کے لئے جاسوسی نیٹ ورک، پاکستان بلاشبہ روز اول سے سلامتی کے خطرات سے دوچار ایک ریاست ہے جو اپنے قیام سے تادم دشمن کی مختلف اقسام سے خود کو محفوظ رکھنے سے فری ہو ہی نہیں سکی۔ گزشتہ 5عشرے سے ہمیں اس جانب کتنے ہی اسباق پڑھا گئے اور ہمیں آئندہ آنے والے عشروں کے لئے بڑا انتباہ دے گئے۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے حالات حاضرہ کا یہ کونسا موضوع ہے اور کہاں سے آ گیا؟ ہوا یوں ہے کہ گزشتہ ہفتے ملک کے بہت پراثر لطیف طبع بزرگ صحافی محترم الطاف حسن قریشی نے میرے بہت کھرے اور سچے دوست کراچی یونیورسی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق سربراہ ڈاکٹر طاہر مسعود کی شخصیت اور صحافتی و ادبی خدمات پر مرتبہ کتاب ’’الطافِ صحافت‘‘ بھجوائی، سچ تو یہ ہے کہ مجھے پاکستانی تاریخ کے ایک بہت اہم مرحلے پرجو پوری قومی زندگی پر اثرانداز ہوا، خود کچھ تحریر کر کے پروفیسر طاہر مسعود کے حوالے کرنا تھا لیکن میری نالائقی کہہ لیں یا غم روزگار کہ میں بدعہدی کا مرتکب ہوا کیونکہ وعدہ بھی کررکھا تھا۔ معاملہ صرف محترم الطاف قریشی کی شخصیت کا نہیں بلکہ اس صحافتی عہد کا ہے جس کی تشکیل میں ان کی خدمات بہت نمایاں تھیں۔ طاہر مسعود یونیورسٹی سطح کے اساتذہ میں ایک جینوئن استاد ہیں اور اپنی صحافت پر تصانیف کے موضوعات کے انتخاب میں بہت محتاط واقع ہوئے ہیں۔ ’’الطافِ صحافت‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے آج کی قومی صحافت بلکہ قومی ابلاغ عامہ کے منظر کا الطاف قریشی صاحب کے عہد صحافت کے اس مرحلے سے موازنہ خودبخود ہوتا رہا جس میں وہ بہت سرگرم رہے اور ان کی زیرِ ادارت اردو ڈائجسٹ، ہفت روزہ ’’زندگی ‘‘ اور روزنامہ جسارت نے ملک میں دھوم مچا دی تھی۔تحقیقی مفروضے کی حد تک پاکستان کی قومی صحافت جو اپنے تئیں نظریاتی بنیاد قومی و ملی زندگی کی عکاس اور ’’ترقی پسندی‘‘ میں تو پہلے ہی منقسم تھی لیکن جو صورت اس نے الیکشن 71تک اختیار کر لی تھی اور پھر آنے والے دو عشرے 1970-1995میں ہماری قومی سیاست اپنی تاریخ کے تسلسل سے کٹ کر سردجنگ کے گہرے نظریاتی اثرات میں منقسم ہو گئی جس سے لامحالہ ہماری قومی صحافت بھی منقسم ہوئی۔ بالآخر سوویت ایمپائر کی تحلیل 70ءسے شروع ہونے والی نظریاتی سیاسی کشمکش کو ختم کر کے سیاسی حکومتوں کے غیر جمہوری ہتھکنڈوں، مارشل لائوں اور روایتی سیاسی جماعتوں نے ایک مہلک اسٹیٹس کو تشکیل دیا، پانامہ لیکس سے اس کا زوال شروع ہوا آگے دیکھئے…..
جہاں تک ’’الطاف صحافت‘‘ میں جناب الطاف قریشی کے صحافتی عہد کا جائزہ ان کے جتنے فاضل دوستوں نے ان کی شخصیت کے پیرائے میں لیا ہے وہ بہت درست حوصلہ افزا اور جاندار ہے۔ نامور مرحوم مزاح نگار پروفیسر عبدالشکور یاد نے ان کی صحافتی خدمات پر وہ سب کچھ لکھ دیا جو میں ’’الطاف صحافت‘‘ میں شامل نہ کرا سکا۔ میں اس کو یوں بھی لیتا ہوں کہ الطاف حسن قریشی پاکستان میں ناصرف بامقصد اور تفریح طبع سے بھرپور ڈائجسٹ جرنلزم کے بانی ہیں بلکہ انہوں نے پاکستان کے میگزین جرنلزم کا بھی ایک اعلیٰ معیار قائم کیا۔ میں جب 1989ءمیں فل برائٹ سکالر کی حیثیت سے امریکہ جا کر وہاں ’’ڈیلس مارننگ نیوز‘‘ سے وابستہ ہوا تو اخبار کے ایڈیٹر صاحبان نے مجھے بتایا کہ امریکیوں کا سیاسی شعور بلند کرنے اور انہیں بحیثیت قوم تعلیم عامہ دینے میں دو پبلی کیشنز ’’کرسچیئن سائنس مانیٹر‘‘ اور ’’ریڈرز ڈائجسٹ‘‘ نے بہت اہم پیشہ ورانہ کردار کیا۔ میری رائے میں یہ کام پاکستان میں محترم الطاف حسن قریشی نے اپنے اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی کے حوالے سے بخوبی نبھایا کہ ان دونوں مطبوعات نےدائیں بازو کے پاکستانیوں کو ہی بہت کچھ نہیں دیا بلکہ بائیں بازو والوں نے بھی اس کی تقلید میں اپنے سیاسی نظریات کے فروغ اور عمومی تعلیم کے لئے جو اخبار رسالے نکالے اس میں وہ جناب الطاف قریشی اور ان کی تیار کی گئی صحافتی ٹیم کا مقابلہ کرتے نظر آئے۔ صحافتی جرات و جسارت کا جو مظاہرہ الطاف صاحب کی ادارت میں روزنامہ جسارت نے بھٹو دور جو پاکستان میں قومی صحافت کے لئے سب سے کڑا وقت تھا، میں کیا وہ ہماری تاریخِ صحافت کا سنہری باب ہے اہم یہ ہے کہ اس کردار کی ادائیگی میں انہوں نے اپنے زور قلم میں کبھی بھی شائستگی کا دامن نہ چھوڑا بلکہ یہ ان کی صحافت کا سب سے نمایاں امتیاز رہی۔ ان کی صحافت کی لطافت اور جرات آج تیزی سے مفقود ہو رہی ہے۔ آج ہماری قومی ناجائز آسودگی میں غرق ایک بڑا حصہ مطلوب جسارت اور شائستگی سے محروم ہو کر پروپیگنڈہ اسٹائل جرنلزم کو اختیار کر کے قومی صحافت کو متنازعہ بنانے کا سبب بن رہا ہے تو ’’الطاف صحافت‘‘ اس کی بہترین رہنمائی کا ایک ذریعہ ہے۔ ہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ ہماری سلامتی کے سوال ہمارے ذرائع ابلاغی کے قومی نظام سے جڑے جا رہے ہیں اس لئے قومی صحافت کو پاکستان کے استحکام کا ذریعہ ماننا پڑے گا۔(بشکریہ جنگ)