تحریر: شمعون عرشمان۔۔
اخبار دنیا بھر کی معلومات سے آشنا کرنے کا اہم ذریعہ ۔۔۔۔ اخبار میں چھپا ہر لفظ ہمیں کچھ نہ کچھ ضرور سکھاتا ہے ۔۔ الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کے حد درجہ پھیلاؤ اور قبولیت کے باوجود آج بھی معلومات کے حصول کا سب سے قابل اعتماد ذریعہ اخبار ہی ہے یعنی اخبار میں چھپنے والا مواد سب سے زیادہ قابل اعتبار سمجھا جاتا ہے ۔۔ کسی زمانے میں کراچی سے شائع ہونے والا شام کا اخبار قومی اخبار اپنی معتبریت، ساکھ اور اشاعت کے اعتبار سے کراچی کے چند بڑے اخبارات میں سے ایک تھا ۔ قومی اخبار نے قاری کی سوچ کے زاویے بدلے ۔۔۔خبر کو مختلف رُخ سے پیش کرنے کا طریقہ متعارف کرایا ۔۔ معاشرتی ہم آہنگی اور قومی تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر صحافت کی ۔ انتہائی نامساعد حالات میں بھی اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور یہ اسی کا ثمر تھا کہ لوگ قومی اخبار میں شائع ہونے والی خبروں پرآنکھ بند کر کے اعتبار کرتے تھے اور اسی لئے دیکھتے ہی دیکھتے اس اخبار نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی ۔ ترقی کا یہ سفر آسان نہ تھا ۔ اس کےلئے شبانہ روز مسلسل محنت تھی ۔ قومی اخبار کےبانی الیاس شاکر نے اخبار پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا ۔ کسی خبر پر کبھی کوئی سودے بازی نہیں کی ۔ بزنس کےلئے اصولوں کو نہیں توڑا ۔ وقتی طور پرتو بارہا مواقع آئے جہاں انہیں بھاری نقصان کا سامنا بھی کرنا پـڑا لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اخبار عوام کا ترجمان بنتا گیا اس سارے سفر میں الیاس شاکر صاحب کے ادارتی عملے کے لوگ ان کے ساتھ ڈٹے رہے۔
عامل بابا جوگیوں ۔۔ جوانی کو دوآتشہ کرنے کے اشتہارات ۔۔ کالے جادو کے ٹوٹکے ۔۔ اور نہ جانے کیا کیا ۔ چندہزار روپوں کے لئے اس اخبار کو استعمال کیا گیا لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی ۔۔ سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو کاٹ کر اس کے پیٹ سے سارے انڈے ایک ساتھ نکالنے کی کوشش میں ہرضابطے ہر قاعدے اور ہررائج اصول کو پامال کردیا گیا
اب اس اخبار کو قتل کے اعلانات ۔۔ مختلف کمیونٹیز کی دل آزاری اور نیم پاگل لوگوں کے منتشرخیالات کی ترویج کےلئے بھی استعمال کیا جانےلگا ہے ۔۔انیس اکتوبر 2023کو اخبار میں شائع ہونے والا بیس تین کا اشتہار کتنے کا ہوگا ۔۔ بیس ہزار تیس ہزار پچاس ہزار لاکھ دو لاکھ ۔۔ لیکن اس کی اشاعت سے جو نقصان ہوا اس کا اس کے نوعمر مالکان کو کچھ ادراک ہے ۔ انہیں احساس ہے کہ قومی اخبار کی اس سلطنت کو بنانے کےلئے اس کے بانی اور اس کے ساتھیوں نے کتنی قربانیاں دیں ۔۔ کروڑوں روپے کی پیشکشوں کو کس طرح ایک ثانیے میں ٹھکرایا گیا ۔۔ درد وغم کتنے جمع کئے تو دیوان کیا ۔۔ کے مصداق ساری خواہشات ۔۔ سارے ارمان ۔۔سارا سکون اور ساری آسائشیں بالائے طاق رکھ کر اس گلشن کی آبیاری کی گئی ۔۔ چند ہزار روپوں کےلئے یہ اشتہار چھاپ کر پورے اخبار کی ساکھ ۔۔عزت اور سالوں کی کمائی کو مٹی کردیا گیا ۔۔ کیا انہیں پتہ بھی ہے کہ اس سے نقصان کیا ہوا ہے ؟ شائید ان کا بال بیکا بھی نہ ہو ۔۔ لیکن اخبار کا تو سوچیے ۔۔ جو نقصان ہوا وہ کروڑوں روپے میں بھی پورا نہیں ہوسکتا۔(شمعون عرشمان)۔۔