تحریر: علی عمران جونیئر۔۔
قومی اخبار 34سال کا ہوگیا ۔۔اخبار کے بانی الیاس شاکر کی موت کے بعد جس تیزی سے اخبار زوال کا شکار ہورہا ہے اس بات کا ندازا اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اخبار کی 34ویں سالگرہ کی نہ تو مبارکباد کا اشتہار دیا گیا نہ کو ئی سپلیمنٹ آیا بلکہ حد تو یہ ہے کہ اخبا ر کی جلد نمبر بھی قارئین کے فونز کال پر سال پوراہونے کے دس دن بعد تبدیل کیا گیا ۔۔یہ تو اخبار کی سالگرہ کی بات تھی اس اخبار کے بانی الیاس شاکر کے انتقال کو تین سال ہوئے ہیں انکی تیسری برسی اتنی خاموشی سے گزر جائے گی کسی کو اندازا نہیں تھا ۔۔برسی کے موقع پربھی کوئی اشاعت خاص تو دور کی بات اخبار کے ایڈیٹوریل پیج پر اخبار کے مرحوم بانی کی خدمات کے حوالے سے کو آرٹیکل تحریر نہیں کیا ۔۔برسی والے دن ادارتی صفحے پر اندرون سندھ کے ایک نمائندے کا ایک نامکمل آرٹیکل پرنٹ ہوا تاہم قومی ایمپلائز یونین کے جنرل سیکریٹری عرفان ساگر کا ایک واٹس اپ پیغام آیا جس میں انہوں نے الیاس شاکر کی قبر پر حاضری اور قبر کی ٹوٹ پھوٹ کا ذکر کیا ۔الیاس شاکر کی قبر انکی دوسری فیملی جہاں انکے صاحبزادے رہتے ہیں وہاں سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔
دوسری طرف اخبار کے ملازمین بھی اخبار کے منتظمین کی ناتجربے کاری سے کافی پریشان ہے ،قومی اخبار کی تاریخ میں پہلی بار رمضان المبارک میں ختم قرآن کی مٹھائی قومی اخبار کی طرف سے تقسیم نہیں کی گئی سنہری مسجد کے منتطمین کو جواب دیا گیا ہماری مالی حالت اچھی نہیں ، اس لئے ہم نیاز تقسیم نہیں کرسکتے ۔۔مرحوم الیاس شاکر اس فریضے کواپنی نگرانی میں خود کھڑے ہوکر انجام دیتے تھے۔۔ شہر کی سب سے اچھی مٹھائی کی دکان سے اعلی قسم کی مٹھائی تقسیم کی جاتی تھی رمضان میں ملازمین کو بونس افطار کے سامان کے پیکٹ اور عید االاضحی کے دوسرے دن شام کو قومی اخبار کے دفتر کے باہر گائے کی قربانی روایت تھی جو اب ماضی کاقصہ بن گئے ہیں۔۔ اب تو رمضان میں بونس تو دور کی بات ملازمین کی تنخواہ بھی مشکل سے ادا کی گئی قومی اخبار کی روایت تھی کہ ہر ماہ کی پانچ تاریخ کو تنخواہ ادا کردی جاتی تھی لیکن اب تو دوماہ کی تنخواہ تعطل کا شکار ہے۔۔ ملازمین مہینے کی آخری تاریخوں تک تنخواہ کے حصول کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں دفتر میں اکاﺅنٹ سیکشن کو بھی تنخواہ کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا اور اکاﺅنٹ سیکشن میں لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں رمضان المبارک میں تو خود ساختہ جنرل منیجر نے ایڈمن کے ملازم کو ماں کی گالی دی تو اس نے اسکے منہ پر جوتا بھی مارا اسکے بعد اکاﺅنٹ سیکشن میں گالی گلوچ اور جھگڑے معمول بن گئے ہیں۔۔
شاہ فیصل کا گجو کا اکائنٹ سیکشن میں شاید ہی کسی کو بخشا ہو اس سے نون بھائی بھی سخت پریشان ہیں اس وجہ سے گجو نے اپنے من پسند اکاؤنٹینٹ کو نوکری پر رکھاہے، مذکورہ اکاؤنٹینٹ اخبار میں آڈٹ کے لئے آئے تھے اکاﺅنٹ سیکشن کے ملازمیں کے مطابق اب اخبار کا کیش بھی اس کے پاس رکھوایا جاتا ہے اس کو دو سے تین گھنٹے کی جو تنخواہ دی جاتی ہے وہ فل ٹائم سینئر ملازمین کو تنخواہ نہیں دی جاتی اسکے علاوہ بھی مختلف مد میں وہ رقوم لیتا رہتا ہے ان اقدامات سے اکاﺅنٹ سیکشن کے ملازمین کا مورال ڈاؤن ہے جب کہ اخبار کے قابض گروپ کے اہم ورکر نے بھی نوکری چھوڑنے کا عندیہ دے دیا یہ وہی ملازم ہے جس نے رمضان میں گجو کو جوتا مارا تھا۔۔الیا س شاکر کی پہلی فیملی جو گارڈن میں رہائش پزیر ہے انکے ماہانہ اخراجات روکنے پر قابض گروپ نے اسکو شاباش دی تھی گجو کی ناراضگی کے بعد اب اسکا نوکری کرنا مشکل ہوگیا ہے اسکو مایوسی اس وقت ہوئی جب جن بچوں کے لئے اس نے اتنے جھگڑے مول لئے انہوں نے بھی اس کے حق میں کچھ نہیں بولا ۔۔الیاس شاکر کے صاحبزادگان جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم اپنے والد سے بھی اچھا انتظام چلا رہے ہیں انہوں نے قومی اخبار کے رہے سہے بانی ملازمین کی زندگیاں عذاب بنادی ہیں اور ان کونوکری کرنا مشکل ہوگیاہے۔۔
الیاس شاکر مرحوم کے مالی معاملات دیکھنے والے اکرم مغل کو معطل کرنے اور اخبار کی بلڈنگ میں انکے داخلے پر پابندی کے بعد الیاس شاکر کے نائب سینئر صحافی کو بھی فارغ کردیا ۔۔الیاس شاکر کو ا ن صا حب کی سرخیاں پسند تھیں اس لئے انہوں نے ان کو ڈپٹی ایڈیٹر کا عہدہ دیا تھا انکو اچھی خبریں فارورڈ کرکے ہدایت کرتے انکی چیختی چنگھاڑتی یا پھر قینچی والی سرخی نکال دو یہ سرخیاں قومی اخبار کی پہچان تھیں اب اخبار کا انتظام یا الیاس شاکر کا عہدہ ایڈیٹر ایک ایسے شخص کو سونپا ہے جسکو ماضی میں مرحوم نے تمام اسٹاف کے سامنے بلاکر نوکری سے فارغ کیا تھا موصوف کو لیڈی ڈائنا کہا جاتا ہے نازک طبیعت کی شخصیت رکھنے والے اس وقت نورتن کا کردار ادا کررہے ہیں اخبار انڈسٹری میں خوشآمد پسند ایسے افراد اپنی جگہ بنانے کے لئے ایسی حرکت کرتے ہیں موصوف متعدد اخبارات میں کام کرچکے ہیں ہر جگہ انہوں نے اپنے سینئرز کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے جیسا قومی میں کیا ۔۔ان صاحب کو الیاس شاکر کے نائب کا کام بھی اپنے زمے لینے پر تنخواہ کے علاوہ 15ہزار نائٹ الاؤنس 500روپے فیول چارجز کی مد میں جس دن رات کے وقت دفترآئیں گے اس دن ملیں گے اور رات کا کھانا بھی ملے گا ۔۔یہ سہولت اخبار کے کسی اور ملازم کے لئے نہیں، حالانکہ اخبار میں الیاس شاکر مرحوم کے کئی چہیتے ملازمین اب بھی کام کررہے ہیں لیکن ان کا قصور یہ ہے کہ وہ قابض گروپ کے چہیتے نہیں۔۔لیڈی ڈائنا نے نے اخبار کو کرائم کا اخبار بنادیا ہے قومی اخبار کے سینئر رپورٹر الیاس شاکر کے پرانے دوست جو شہر کے سیا سی حلقوں میں قومی اخبار کے سفیر کا کردار ادا کرتے تھے انکی نوکری بھی مشکل کردی ہے انکی اچھی خبروں کا ڈسپلے روک دیا خبر پر انکے نام کی ااشاعت پر پابند ی عائد کردی گئی ہے جبکہ دوسری طرف مارکیٹ کے بدنام ترین افراد جو بلیک میلنگ کے حوالے سے مشہور ہیں ان پر مشتمل ایک ٹیم بھی رکھی گئی قومی اخبار کی پالیسی کے خلاف نوٹ کمانے کے لئے خبریں شائع کی جارہی ہیں قومی اخبار کی 33سالہ تاریخ میں پہلی بار شعبہ اطلاعات کی جانب سے ایک بلیک میلر رپورٹر کی خبروں پر نوٹس جاری ہوا اس نوٹس کے بعد کچھ عرصے کے لئے اس رپورٹر کی خبروں پر پابندی عائد کردی گئی ۔۔اخبار کی جانب سے اس نوٹس کا جواب نہیں دیا گیا چند ماہ اس رپورٹر کی خبروں کے تعطل کے بعد دوبارہ خبریں شائع شروع کردی گئی یہ رپورٹر اخبار کے دفتر تو نہیں آتے اور نہ ان سے اخبار کا عملہ واقف ہے ان کی ڈیل باہر سے ہوتے ہی اخبار کے قابض گروپ کےبنائے گئے ایک واٹس ایپ گروپ میں خبر شیئر کی جاتی ہے اور ہدایت دی جاتی ہے کہ یہ خبر ضرور لگائیں جس کے بعد وہ خبر من وعن شائع کردی جاتی ہے اس جعلی رپوڑٹنگ ٹیم کی تمام ڈیل باہر سے کی جاتی ہیں اخبار کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی ۔۔
قومی پریس سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق کسی زمانے میں قومی اخبار مضافات کی پٹی جس میں نرسری محمودآباد ،شاہ فیصل کالونی ، ڈرگ روڈ ، ملیر ، قائدآباد ، اسٹیل ٹاﺅن کے علاقے میں اخبار کی سپلائی کے لئے سوزوکی جاتی تھی اب اس پٹی پر 800سے ہزار اخبار جاتا ہے اس طرح قومی اخبار کے مرکز لیاقت آباد والی پٹی گرومندر سے شروع ہوکر سہراب گوٹھ تک جاتی اب اس پٹی پر 1500اخبار جارہا ہے اخبار تیزی سے تباہی کی طرف جارہا ہے جہاں پہلے شہر کی مسائل اور سیاسی ایکسیلوزو خبریں شائع ہوتی تھیں اب پیدا گیر ٹولے کی خبریں شائع ہوتی ہیں اخبار کے کرائم رپورٹر کی نیوز انچارج (لیڈی ڈائنا ) سے دوستی کی وجہ سے اخبار میں کرائم کی خبریں نمایاں شائع ہوتی ہیں شہر کی سیاسی جماعتوں میں قومی اخبار کے سفیر سینئر رپورٹر کی خبریں ردی کی ٹوکری کی نذر کردی جاتی ہیں31اکتوبر کی شب تو قومی اخبار ہاﺅس کے گیٹ پر اخبار کے چیف رپورٹر کو سیکورٹی گارڈ نے اسلحے کے زور پر داخلے سے روک دیا پاکستان نیوی کے سویلین ملازم جو پارٹ ٹائم میں اخبار میں گارڈ کی ڈیوٹی دیتے ہیں اپنی سرکاری نوکری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے سینئر صحافی کو ہراساں کیا یہ تمام اقدام اخبار کے قابض گروپ کی ہدایت پر کی گئی ۔۔چیف رپورٹر اخبار کی ایمپلائز سی بی اے یونین کے فنانس سیکریٹری بھی ہیں ،صحافتی تنظیم کے بھی عہدیدار ہیں انہوں نے چند روز قبل اسلام آباد میں ہونیوالے پی ایف یو جے کے کنونشن میں شرکت کی تھی جس پرا نہیں اور یونین کے جنرل سیکریٹری کو شوکا زدیا گیا تھا جسکا جواب بھی دے دیا گیا تھا اسکے باوجود انکو تنگ کیا جارہا تھا بتایا جاتا ہے کہ اخبار کی بلڈنگ الیاس شاکر کی صاحبزادی حراشاکر کے نام پر رجسٹر ہے انکی ملکیت ہے تاہم دوسری فیملی نے اس ملکیت کو چیلنج کررکھا ہے بلڈنگ میں دوسری فیملی کو داخلے سے روکا نہ جائے عدالت سے انہوں نے اسٹے لے رکھا ہے یہ فیملی جو خود اسٹے لے کر بلدنگ میں داخل ہورہی ہے اب ملازمین کا داخلہ روک رہی ہے جبکہ چیف رپورٹر کو بلڈنگ میں داخلے سے روک دیا چیف فوٹو گرفر ،اور ایک خاتون صحافی سمیت 5ملازمین کی تنخواہ روک دی گئی ہے ۔قومی اخبار کے بانی الیاس شاکر کے انتقال کے تین سال کے باوجود اخبار کے پرنٹر اور پبلشر مرحوم الیاس شاکر ہیں پاکستانی قانون کے مطابق اخبار غیر قانونی طور پر شائع ہورہاہے ایک پارٹی کے من مانے اقدامات اور سینئر صحافیوں کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کا انفارمیشن ڈیپارٹمنت اور ڈپٹی کمشنر نے نوٹس لے لیا تو قومی اخبار اور روزنامہ ریاست کے ڈیکلرشن بھی منسوخ ہوسکتے ہیں۔۔
اخبار میں کیا ہورہا ہے ریاست کا ببلو قومی کا لیڈی ڈائنا ، پینڈو اور گجو کیا کررہے ہیں جلد اگلی قسط میں بتا یا جائے گا۔۔(علی عمران جونیئر)۔۔
(نوٹ: ہم نے اس تحریر کے حوالے سے مرحوم الیاس شاکر کے صاحبزادگان کو کئی بار فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ہمیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، اس لئے ہم قومی اخبار انتظامیہ کے موقف کے بغیر اپنی یہ تحریر شائع کررہے ہیں۔۔ قومی اخبار، ریاست اخبار کی انتظامیہ اگر تحریر سے اختلاف رائے رکھتی ہے اور اپنا موقف دینا چاہتی ہے تو ضرور ہمیں اپنا موقف دے سکتی ہے، ہم اسے من و عن شائع کریں گے۔۔علی عمران جونیئر)۔۔