apne khuab ki tabeer par samjhota mat kijiye

قحط الرجال ہے لیکن ۔۔۔۔

تحریر: امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب۔۔

“گمراہ کن خبروں کے منہ زور سیلاب میں آزادی صحافت کا تحفظ کیسے ممکن ہے؟”فکری انحطاط کے اس “بھیانک دور”میں “گوشہ افکار” کے زیر انتظام اس موضوع پر یہ ایک فکر انگیز مکالمہ تھا۔۔۔۔۔۔مکالمہ وہ “آب حیات” ہے جو کائی جمے دماغوں کو” برگ و بار”کرتا ہے۔۔۔۔مکالمے سے فکری جمود پاش پاش ہوتا اور سوچ کی نئی “کونپلیں” پھوٹتی ہیں۔۔۔۔”گوشہ افکار”میں سجی اس فکری نشست کا “ابتدائیہ” خوب تھا تو “اختتامیہ”خوب تر۔۔۔۔۔۔”گوشہ افکار “مدبر ماہر تعلیم محترمہ ڈاکٹر بشری حمید الرحمان کا پروجیکٹ ہے جس کے ساتھ ملک کی تمام یونیورسٹیز اور کالجز کے شعبہ ہائے ابلاغیات منسلک ہیں۔۔۔۔۔۔۔یہ پلیٹ فارم صحافت اور  ابلاغ عامہ پر فکری نشستوں کا اہتمام کرتا ہے۔۔۔۔۔ڈاکٹر بشری پنجاب یونیورسٹی شعبہ ابلاغیات کی پروفیسر رہی ہیں ۔۔۔۔ وہ شعبہ ابلاغیات کے سکول آف جرنلزم کی چئیرپرسن کے طور پر اس سال فروری میں ریٹائر ہوئیں اور  آج کل بیکن ہائوس یونیورسٹی کی ڈین ہیں۔۔۔۔۔دعوت نامے کے مطابق یہ

“Association of Media and communcation Academic

Professionals”

یعنی AMCAPکے منصوبے

“Academia Media Liaison (AML)”

کے زیر اہتمام دوسری گول میز مجلس تھی جس کا عنوان تھا

“Protecting Press Freedom in the Age of Digital Disinformation”

گول میز مکالمے” کی خوب صورتی یہ تھی کہ صحافت کے قابل صد احترام اساتذہ کرام اور عملی صحافت کے شب و روز میں الجھے “قلم مزدور” رو برو تھے اور گمراہ کن خبروں کے سنگین مسئلے کی گتھی سلجھا رہے تھے۔۔۔۔۔ماہرین تعلیم کی جانب سے” ایم کیپ” کی سربراہ ڈاکٹر بشری حمید الرحمان۔۔۔۔ڈاکٹر عابدہ اشرف۔۔۔۔ڈاکٹر شفیق کمبوہ۔۔۔۔۔ڈاکٹر سید ثاقب۔۔۔۔ڈاکٹر عائشہ اشفاق۔۔۔۔ڈاکٹر ثوبیہ زاہد۔۔۔۔ڈاکٹر زعیم یاسین اور صباحت افشیں جبکہ صحافیوں میں روزنامہ مشرق کے سنجیدہ اور فہمیدہ گروپ ایڈیٹر برادرم جناب اشرف سہیل۔۔۔۔۔جناب احسن ضیا۔۔۔۔جناب اویس حمید۔۔۔محترمہ ثمن خان اور شہباز اکمل جندران شریک مجلس تھے۔۔۔۔۔شرکائے مجلس نے اتفاق کیا کہ میڈیا ہائوسز میں تربیت اور “مصدقہ تحقیق” جبکہ شتر بے مہار سوشل میڈیا کے لیے قوانین وضع کرکے ہی غلط معلومات کا طوفان بدتمیزی  روکا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔”مصدقہ تحقیق” اس لیے کہا کہ صرف “گوگل سرچ” کو ریسرچ نہیں کہا جاسکتا۔۔۔۔میں نے” حال دل” کہا کہ جھوٹی خبروں کے تدارک کے لیے ہمیں “ہائوس ان آرڈر” کرنا پڑے گا اور اس کے لیے تربیت کئی ‘دریا” تیرنا پڑیں گے۔۔۔۔۔۔ہمیں اپنے گھروں میں بچوں کو بتانا پڑے گا کہ جھوٹ ایک لعنت ہے۔۔۔۔۔دانش گاہوں میں کذب بیانی کیخلاف طالب علموں کی ذہن سازی کرنا ہوگی جبکہ اداروں میں سکھانا پڑے گا کہ کھوٹ پکڑنے کی” کسوٹی” کیا ہے؟؟؟….میں نے عرض کیا کہ صحافت میں کبھی یک پہلو خبر کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔۔۔۔اخبارات کے صفحہ دو پر شائع ہونے والی خبروں کے لیے بھی دوسرے فریق کا موقف لازمی ہوا کرتا تھا اور نیوز روم اس اصول پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا تھا۔۔۔۔.۔پھر “پی آر او کلچر” نے رپورٹنگ کو اپاہج کر دیا تو “کٹ اینڈ پیسٹ کلچر” نے نیوز روم کی کمر توڑ دی۔۔رہی سہی کسر سوشل میڈیا کے ہجوم نے پوری کر دی۔۔۔اب شہر شہر “اچھل کردیے” ہیں اور جو کسی کا دل کرے بولتا اور لکھتا ہے اور شرماتا بھی نہیں۔۔۔میں نے کہا کہ “ڈس انفارمیشن” ایجنڈے کے تحت پھیلائی جاتی ہے اور زہریلے پراپیگنڈا  کی “جانچ” دور حاضر کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔۔۔میں نے جامع تربیت کے لیے کسی ٹھوس بنیاد ضرورت پر زور دیتے ہوئے قرآن مجید کی سورہ الحجرات کی آیت نمبر چھ کا حوالہ دیا جس میں حکم دیا گیا کہ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تم تحقیق کر لیا کرو، کہیں لاعلمی میں تم کسی قوم کو نقصان پہنچا دو اور پھر تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔۔میں نے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان عالی شان کا بھی حوالہ دیا کہ جس میں واضح کہا گیا کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے پھیلا دے۔۔۔میں نے تجویز دی کہ مذکورہ آیت اور حدیث مبارکہ کو صحافت کے نصاب میں شامل کیا جائے کہ قرآن و حدیث سے معتبر اور مستند نصاب کیا ہو سکتا ہے؟؟؟ڈاکٹر بشری نے مہمان صحافیوں کے سامنے تلخ سوال اٹھایا کہ کیا صحافی بھی ڈس انفارمیشن پھیلاتے ہیں؟؟میں نے شیریں لہجے میں جواب دیا کہ افسوس کبھی کارکن صحافی ورکنگ جرنلسٹس کہلایا کرتے اب سیاسی جماعتوں کے کارکن صحافی پکارے جاتے ہیں۔۔۔اب لازم ہے ریٹنگ کے لیے کسی نہ کسی سیاسی جماعت اور اس کے قائد کے “قصیدے” کہے جائیں۔۔ کبھی بے چارے ایک صالح ظاہر معتوب ٹھہرتے اب قطار اندر قطار “صالح ظاہر” ہیں اور انہیں “شاباش ” ملتی ہے۔۔”لفافے” اور “ٹوکریاں” ملتی ہیں۔۔میں نے یہ بھی عرض کیا کہ تنقید کا مطلب دشنام طرازی ہے اور نہ یہ جرنلزم ہے۔۔۔۔اب تو “مبینہ صحافیوں” کا “جوش خطابت” دیکھ کر شرم آتی  اور سوال کرنے کو دل کرتا ہے کہ تمہی کہو یہ انداز گفتگو کیا ہے؟؟؟؟جناب اشرف سہیل نے ڈاکٹر بشری کے سوال کے پیش نظر کیا ہی خوب جملہ کہہ کر مجلس سمیٹ دی۔۔انہوں نے کہا کہ آج کے مکالمے کا سبق یہ ہے کہ ہمیں جانب دار ہونا چاہیے لیکن صرف اور صرف  اپنی صحافت کے ساتھ۔۔”گوشہ افکار”کی روح رواں محترمہ ڈاکٹر بشری حمید الرحمان سے ملکر دل کو تسلی ہوئی کہ وطن عزیز میں “قحط الرجال” ہے لیکن اتنا بھی نہیں۔۔(امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں