qazi faiz esa ne sahafio par be buniyaad ilzamaat lagae

قاضی فائز عیسیٰ نے صحافیوں پر بے بنیاد الزامات لگائے، حامد میر۔۔

سینئر صحافی ، کالم نویس اور تجزیہ کار حامد کا کہنا ہے کہ ۔۔  جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ میری پہلی باقاعدہ ملاقات لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے دوران ہوئی، میں نے اپنی تقریر میں ان کے خلاف ریفرنس کی مذمت کی تو وہ حاضرین میں بیٹھ کر مجھے سن رہے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے مجھے اپنے انگریزی میں لکھے گئے مقالے کی نقل دی جو آزادیٔ اظہار کے موضوع پر اس کانفرنس میں پڑھا گیا تھا ان کے چیف جسٹس بننے تک میں اس غلط فہمی میں رہا کہ وہ آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ 13اپریل 2023ء کو میں نے ’’سقوط آئین‘‘ کے خطرے پر کالم میں لکھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سقوط آئین نہیں ہونے دیں گے کیونکہ سقوط آئین ہمیں سقوط ڈھاکہ سے بڑے سانحے سے دوچار کر سکتا ہے افسوس کہ میری رائے بالکل غلط نکلی۔ روزنامہ جنگ میں اپنے تازہ کالم میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ چیف جسٹس بننے کے بعد قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس میں اپنے فیصلے کی خود ہی خلاف ورزی کی اور وہ خفیہ اداروں کی سیاست میں مداخلت کے سہولت کار بن گئے۔ وہ برے وقت میں بھاگ بھاگ کر عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت کیلئے لاہور پہنچتے تھے۔ چیف جسٹس بنے تو عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت کی دعوت کو رعونت سے ٹھکراتے ہوئے کہا کہ جج تقریریں نہیں کرتے بلکہ فیصلے لکھتے ہیں۔ قاضی صاحب 13ماہ چیف جسٹس رہے لیکن اس مختصر عرصے میں زیادہ وقت وہ اپنے ساتھی ججوں سے اور ساتھی جج ان سے لڑتے رہے۔ ان کے دور میں ہائی کورٹس کے ججوں کے ساتھ وہی کچھ ہوتا رہا جو عمران خان کے دور میں جنرل فیض حمید نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ساتھ کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس بننے کے بعد پاکستان کی تاریخ کے سب سے متنازعہ الیکشن کمیشن کو تحفظ فراہم کیا جس نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے متنازعہ الیکشن کرایا۔ ان کا تعلق بلوچستان سے تھا لیکن پچھلے 13ماہ میں بلوچستان سے جتنے نوجوان لاپتہ ہوئے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور غیر علانیہ سنسر شپ میں اضافہ ہوا۔ قاضی صاحب ان معاملات پر ناصرف خاموش رہے بلکہ انہوں نے صحافیوں پر ایسے ایسے بے بنیاد الزامات لگائے جن کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا۔ ان کا اصل کردار مبارک ثانی کیس میں سامنے آیا جس میں وہ اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہوئے اور اسی کیس کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن نے آئینی عدالت نہ بننے دی تاکہ قاضی صاحب آئینی عدالت کے چیف جسٹس نہ بن جائیں، قاضی صاحب نے بطور چیف جسٹس اپنے کردار سے پنجاب پر ایک احسان فرمایا ہے۔ اب کوئی یہ نہیں کہے گا کہ پنجاب نے نظریۂ ضرورت کا بانی جسٹس منیر پیدا کیا اب تو بہت سے غیر پنجابی وکلاء یہ کہہ رہے ہیں کہ جسٹس منیر سے زیادہ برا جج بلوچستان نے پیدا کیا۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں