تحریر: عمیر علی انجم
ایسا لگتا ہے کہ کوئی بلڈوزرہے جو صحافیوں کو روندتا ہوا چلاجارہا ہے اور ستم ظریفی یہ کہ پس پردہ اس بلڈوزر کے ڈرائیورز ہمارے اپنے صحافی رہنما ہی ہیں ۔میں کل سے انتظار میں ہوں کہ جس بڑے پیمانے پر میڈیاہاؤسز سے صحافیوں کو نوکریوں سے نکالا گیا ہے اس پر احتجاج کرتے ہوئے کوئی رہنما آگے آئے اور ان کے دکھوں کا درماں بنے ،لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب تک ان کو علم ہی نہیں ہوسکا ہے کہ صحافیوں پر کیا قیامت ڈھادی گئی ہے ۔۔بحران کے نام پر جاری اس ڈرامے کے ہدایت کارمیڈیا مالکان ضرور ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس میں مرکزی کردار ہمارے عظیم رہنما ادا کررہے ہیں ۔ ۔میں گزشتہ ایک سال سے چیخ رہا ہوں کہ بیانات اور کیمپوں کے ڈراموں سے نکل کر کوئی حقیقی کام کیا جائے لیکن ان کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔۔مسئلہ یہ ہے کہ سب کی جیبیں بھری ہوئی ہیں ۔انگلیاں گھی میں اور سرکڑاہی میں ہے ۔۔ان کو پروا ہی نہیں کہ صحافیوں کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔یہ عقل اور دانش سے بے بہرہ وہ قیادت ہے جو افطار پارٹیوں ،فیسٹولز اور ڈنرز میں مصروف ہے۔۔مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ ہم پر”رہنمائی” کی شکل میں ایسی ”ڈائن” مسلط ہوگئی ہے ،جو آخر میں اپنے بچوں تک کو کھاجاتی ہے ۔۔۔۔
دنیا” نے اپنے ملازمین کو ”دنیا” میں ہی نامہ اعمال ہاتھ میں تھمادیا تو اے آر وائی کے فرمانروا جو ”کراچی کنگ” کے بادشاہ بھی ہیں نے پی ایس ایل کے نئے ایڈیشن سے پہلے کارکنوں کی قربانی دینا لازم سمجھی ۔”آج ” اب ”کل” ہوگیا ۔۔۔”اب تک” نے صحافیوں کو ”گھر تک” پہنچادیا”ڈان” نے ”ڈون” کی شکل اختیار کرکے ورکرز کو رخصتی کا پروانہ تھمادیا ۔۔۔۔۔”جیو” نے ”جلاد” کی شکل اختیار کرلی ہے ”ہم”ملازمین کے حقوق مارکراب’ہضم” میں تبدیل ہوگیا ہے تو ”ایکسپریس” کا ”پہیہ” الٹا گھوم کر جام ہوگیا ہے ۔۔
یہ تو وہ صحافی ہیں ،جن کو تنخواہ کا انتظار کرنے کی اذیت سے نجات مل گئی ہے لیکن اب ان کو یہ غم کھائے جارہا ہے کہ پہلے لوگ تنخواہ ملنے کی امید پر ادھارتو دے دیتے تھے ،اب یہ در بھی بند ہوتا نظر آرہا ہے ۔۔جو لوگ اب تک نوکریوں پر موجود ہیں ان کے لیے ان کاہونا یا نہ ہونا برابر ہی ہے ۔کسی کو علم نہیں کہ ان کو محنتانہ کب ملے گا ۔۔میڈیاہاؤسز نہ ہوئے بیگار کیمپ ہوگئے ہیں اور ان کے رکھوالے ہمارے عظیم رہنما ہیں ۔۔ یہ اس وقت مجھے دکن کے میر صادق لگ رہے ہیں جنہوں نے ٹیپو سلطان کے لیے قلعے کے دروازے بند کردیئے تھے ۔ان رہنماؤں نے ہمارے لیے روزگار کے دروازے بند کیے ہیں ۔اگر بنگال کا میر جعفر انگریز وں کا ایجنٹ تھا تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمارے یہ ”ناخدا” میڈیا مالکان کے ایجنٹ ہیں ۔جس تیزی کے ساتھ صحافیوں کو نوکریوں سے نکالا جارہا ہے اور اتنی ہی زیادہ ان کی خاموشی گہری سے گہری ہوتی جارہی ہے ۔۔۔۔
میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ ان روز حساب قریب آن پہنچا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ان کو اب کوئی جائے پناہ نہیں ملے گی ۔۔۔۔۔یہ صحافیوں کو بھوک کی دلدل میں دھکیل کر خود بھی مخملی بستروں پر سکھ کی نیند نہیں سوسکیں گے ۔۔۔۔”یہ اختتام کا آغازہے ” اور اس وقت صحافیوں کو کسی نام نہاد رہنما کی طرف دیکھنے کی بجائے خود اپنی بقا ء کا سوچنا چاہیے ،جس طرح ان عظیم رہنماؤں نے غریب صحافیوں کو اپنے مفادات کے بھینٹ چڑھایا ہے۔۔۔۔۔اب وقت آگیا ہے کہ ان رہنماؤں کی بھی بھوک سے شناسائی کراتے ہوئے انہیں گھر کاراستہ دکھایاجائے ۔۔(عمیر علی انجم)۔۔
(نوجوان صحافی عمیرعلی انجم کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کامتفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر)