تحریر: خرم علی عمران
انتیس اور تیس جولائی دوہزار انیس کی بارشوں میں کرنٹ لگنے سے جان بحق ہوجانے والوں کی تعداد اخباری خبروں کے مطابق 22ہے اور بہت سے واقعات رپورٹ بھی نہیں ہوئے ہوں گے۔ ملیر میں دو بچے 11 اور 13 سال کے گلی میں جاتے ہوئے کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوئے۔ دیگر علاقوں میں بھی یہی کچھ کم و بیش پیش آیا۔ کراچی کےاس بچے کا واقعہ بھی ابھی زیادہ پرانا نہیں ہوا جس کے دونوں بازو کرنٹ کا شکار ہوجانے کی وجہ سے کاٹنے پڑے اورر اب تا حیات وہ اس محرومی کے ساتھ زندگی گزارے گا۔ پھر ابھی رمضان شریف کے اواخر میں ملیر کا وہ رکشے والا جو ایک بند دکان کے ساتھ اپنا رکشہ کھڑا کرنے خوشی خوشی افطار کرنے گھر جانے کا قصد کئے ہوئے تھا کہ بند دکان کے شٹر پر ہاتھ لگا بیٹھا اوراس دکان پر بجلی کا تار پول سے ٹوٹ کر گرا ہوا تھا۔ وہیں شہید ہوگیا بے چارہ اور اس کی بیوہ اب عدالتوں میں انصاف مانگنے کے لئے دھکے کھا رہی ہے۔ شروع میں کچھ شور مچا اور وعدے وغیرہ کئے گئے اس بے چاری بیوہ کے ساتھ مگر حسب روایت سب ٹھںڈا پڑگیا۔ یہ صرف دیک کے چند دانے ہیں جو ابھی حالیہ پیش آمدہ واقعات سے پیش کئے گئے ۔اگر تحقیقی طرز پر پچھلے چند ماہ کا یا اور آگے بڑھ کر چند سالوں کا ڈیٹا اس حوالے سے جمع کیا جائے تو شاید آنکھیں پھٹ جائیں اور ہمارے بے حس دل بھی دہل جائیں کہ کتنے لوگ اس بجلی گردی کا شکار ہوئے ہیں جس کا ذمہ دار صرف اور صرف ایک ادارہ ہے جس کا نام ہے کراچی الیکٹرک المعروف بہ کے الیکٹرک۔
اگر ہم کسی مہذب معاشرے میں رہ رہے ہوتے جہاں عوام کو اپنے حقوق کا شعور ہوتا اور عدالتی نظام اس طرح فعال ہوتا کہ جیسے اسے ہونا چاہیئے تو شاید یہ ادارہ تاوان ادا کرتے کرتے دیوالیہ ہوچکا ہوتا لیکن یہ بڑا خوش قسمت ادارہ ہے کہ جہاں یہ آپریٹ کررہا ہے وہاں جنگل کا نظام نافذ ہے اور جہالت کا دور دورہ ہے اس لئے اس کے مظالم ، روز بہ روز بڑھتے ہوئے المیوں کا کوئی پوچھنے ولا نہیں ورنہ مہذب اور انسانی زندگی کو سب سے زیادہ اہمیت دینے والے معاشروں میں تو ایک ہی موت یا ایک ہی حادثہ ذمہ دار اداروں کا کٹہرے میں لا کھڑا کرتا ہے اور انہیں قرار واقعی سزا ملا کرتی ہے۔ کے الیکٹرک کو شاید پاکستان کے سب سے بڑے شہر پر بطور سزا مسلط کیا گیا ہے کہ وہ اس شہر کے باسی کسی طرح بھی سکون کا سانس نہ لے پائیں تو دیگر مسلط کردہ عذاب و بلاؤں کے ساتھ ساتھ یہ بلا بھی نازل کی گئی ہے۔
کے الیکٹرک یا سابق کے ای ایس سی نے عوام کا ہر طرح سے جینا حرام کیا ہوا ہے۔لوڈ شیڈنگ، اوور بلنگ، تیز میٹر، تانبے کے تار بیچ پر کھاجانے کے بعد سارے کراچی میں المونیم کے تار جو بار بار ٹوٹ کر گرتے اور تباہی پھیلاتے ہیں، صارفین کے ساتھ عملے کا فرعونیت سے بھرپور رویہ ،یہ سب تو اب معمول بن گیا ہے اور ہمارے صابر و شاکر قسم کے عوام الناس اسے لاشعوری طور پر اپنی قسمت سمجھ کر برداشت کررہے تھے اور کررہے ہیں لیکن اب تو بات انسانی جانوں تک آ گئی ہے اور مقتدر ادارے جس بے حسی سی یہ سب تماشا دیکھ رہے ہیں اورمجرمانہ غفلت کی حد تک خاموش ہیں وہ لائق صد افسوس ہے۔ اگر کے الیکٹرک کا آڈٹ نہیں ہوسکتا، اگر کے الیکٹرک قانون سے بالا تر کوئی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تحفظ دیا گیا ادارہ ہے یا اس سے پوچھ گچھ کرنے اور حساب لینے سے بین الاقوامی پیچیدگیاں پیدا ہوجانے اور تیسری عالمگیر جنگ چھڑ جانے کا خطرہ ہو یا پھر کچھ ایسے سرپرست پردہ نشینوں کا نام عیاں ہوجانے کا اندیشہ ہو کہ ملک میں بھونچال آجائے تو پھر تو ٹھیک ہے کوئی بات نہیں،ہم برداشت کرلیں گے، لیکن اگر بالا ذکر کردہ باتیں یا ایسی ہی کوئی دوسری مجبوریاں نہیں ہیں تو پھر اس قاتل ادارے سے انسانی جانوں کا حساب لے سکنے والے ذمے داران کی خاموشی سمجھ سے باہر ہے۔
بجلی اور پانی بھی روٹی کے ساتھ ساتھ بنیادی ضرورت میں شمار ہوتے ہیں خدارا اس پر توجہ دیجئے بہت سے طریقے ہیں بہت سے سسٹم ہیں جن پر ماہرین بہتر طریقے سے روشنی ڈال سکتے ہیں کہ کیسے اس بلا سے جان بھی چھوٹ جائے اور بجلی کانظام پہلے سے بہتر ہوجائے لیکن بات تو وہی ہے نا کہ یہ سب تو جب ہوگا جب ایسا کرنے کی چاہ ہوگی۔ کئی لوگ بھیجے گئےغلط اور ناجائز بلز کو دیکھ کر دل پکڑ کر بیٹھے اور مر گئے یہ کوئی جھوٹی بات نہیں بلکہ اخباری خبریں اور دیدہ و شنیدہ واقعات ہیں۔ اس ادارے کا عملہ اپنی سرپرستی میں کنڈہ سسٹم اور کئی طریقوں سے بجلی چوری کا نظام چلاتا ہے اور پیسے بناتا ہے اور اس کا بوجھ ایمان داری سے بل ادا کرنے والے صارفین بھگتتے ہیں۔ اور یہ بجلی چوری کا نظام اورکام عام صارف کے ساتھ یعنی کہ عام لوگوں کے علاقے میں ایک روپے کا فرض کریں کہ اگرہے تو بڑی بڑی فیکٹریوں اور اداروں میں کروڑوں روپوں کا ہے۔ اصل مال پانی تو وہاں بنتا ہے میگا واٹس کی چوری میں جس کا نتیجہ عام عوام بھگتے ہیں۔
مجھے پتہ ہے ۔میں جانتا ہوں کہ یہ مختصر سی تحریر کوئی شاید اثر نہ ڈال سکے کہ بڑے بڑے لکھنے والے اس موضوع پر عرصےسے لکھ رہے ہیں لیکن کوئی فرق نہیں پڑا لیکن ایک شہری ہونے کے ناطے اور فرض کفایہ سمجھ کر یہ تحریر لکھ رہا ہوں کہ اس مقبول ویب سائٹ پر کہ اس کے توسط سے شاید کوئی ایسا قاری ہو کوئی ایسا بندہ ہو جو یہ پڑھ لے اورمقتدر حلقوں تک اس رنج و غم کو پہنچا سکے جو ایک لاوے کی طرح کے الیکٹرک کے حوالے سے عام لوگوں کے دلوں میں پنپ رہا اور پک رہا ہے اور ساتھ ساتھ یہ احساس بے بسی بھی ہے کہ ہمیں کوئی پوچھنے ولا ، کوئی غمخوار،ہمارا کوئی ساتھ دینے والا نہیں ہے چاہے یہ ادارہ جیسے چاہے عوام کو لوٹے ، پریشان کرے ،حتی کہ جان سے بھی ماردے۔تو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لاوا پھر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق پھٹے اور ایسا پھٹے کہ اور اس ظالم ادارے کے ساتھ ساتھ بہت سے بڑے بڑے ناموں کو بھی بہا کر لے جائے۔(خرم علی عمران)