بلاگ: صابر بخاری
آپ نے سینئر لکھاری ہارون رشید اور پولیس کے اے ایس آئی کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو تو سنی ہوگی ,ہارون رشید کو پولیس کے اے ایس آئی کو گدھے کا بچہ نہیں کہنا چاہیے تھا ,نہ ایسی بازاری زبان انکے شایان شان ہے.ویسے بھی موصوف اپنے ماتحت عملہ کو گالم گلوچ حتی کہ بعض اوقات تھپڑ بھی رسید کردیتے ہیں مگر مالکان کا چہیتا ہونے کی وجہ سے سب عملہ انکے سامنے بھیگی بلی بنا رہتا ہے.جیسا لہجہ اور زبان کال پر سننے کو ملی موصوف عملی زندگی میں بھی جوں کے توں ہیں .مگر دوسری طرف پولیس کے اے ایس آئی کےلہجہ سے بھی بخوبی فرعونیت چھلک رہی ہے,ایک اے ایس آئی ایک میڈیا والے اور وہ بھی سینئر سے اس طرح بات کرتا ہے ,عام لوگ خاص طور پر سائل, ملزم یا مجرم کو تو کھانے کو دوڑتا ہوگا,بعض سینئر افسران کا لہجہ تو فرعونیت کی حدود بھی عبور کرجاتا ہے .یہ اصل عکاسی ہے ہماری پولیس کی جو بندے کو بندا ہی نہیں سمجھتی.وہ جان بوجھ کر تکلیف دیتے اور ایسا لہجہ اپناتے ہیں تاکہ انکے لیے رشوت کے در کھلیں.گدھے کا بچہ نہیں کہنا چاہیے تھا مگر یہ بھی واضح رہے کہ پولیس کی بات کا آغاز گدھے کے بچے اور اختتام کا اندازہ آپ خود کرسکتے ہیں,گالیوں کے اے سے لیکر زیڈ تک حروف تہجی انہیں زبانی یاد ہیں جن کا دن میں کئی مرتبہ استعمال ہوتا ہے ,ان لوگوں کو صرف گدھے کا بچہ کہنے پر تکلیف ہو رہی ہے تو سوچیں یہ شہریوں کو ماں بہن کی گندی ننگی گالیوں سمیت کیا کیا نہیں بولتے,کبھی انہوں نے سوچا ان پر کیا بیتتی ہوگی .ایک صحافی اگر کسی مجبور محکوم کے بارے میں نہیں پوچھے گا تو انکا ولی وارث کون بنے گا?پولیس جو ہماری ہمدرد ہے وہ سب جانتے ہیں,لوگ ڈاکو سے راستہ پوچھ لیتے پولیس سے نہیں. نئے آئی جی کیلئے ضروری ہے کہ وہ پولیس خاص طور پر چھوٹے افسران کی تربیت کریں یا انکی جگہ ان پڑھ ملازمین بھرتی کریں کم از کم ان کا لہجہ ان پڑھے لکھے پولیس افسران سے بہتر ہوگا.دوسری طرف میڈیا کے اداروں خاص طور پر میڈیا کی تعلیم دینے والے اداروں کو نصاب کیساتھ ساتھ انکی ذہنی اور بول چال کی بھی تربیت دینی چاہیے.۔۔(صابربخاری)۔۔
(بلاگر کی تحریر سے ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں ، علی عمران جونیئر)۔۔