تحریر: خرم شہزاد
عطاالحق قاسمی صاحب کے بارے میں عدالت کا فیصلہ آ گیا مگر شائد یہ فیصلہ نا مکمل تھا یا اس میں کچھ ابہام تھے کہ فیصلے کی وضاحت و فصاحت کے لیے اب فیس بک کی ہر دوسری تیسری دیوار پر صاحب دیوار کا اپنا دیا ہوابیانیہ بھی نظر آ رہا ہے۔ فیس بک پر لکھی جانے والی تحریروں میں زبان اور ادب کی کمی تو ہمیشہ سے رہی ہے لیکن قاسمی صاحب کے بارے جو زبان استعمال ہو رہی ہے وہ قاسمی صاحب کے بارے معلومات کم دے رہی ہے البتہ صاحب زبان کی تربیت اور اخلاقیات کا پتہ زیادہ دے رہی ہے۔ میں یہاں قاسمی صاحب کا دفاع بالکل نہیں کروں گا کیونکہ یہ کام ان کے فین اور وہ خود بہت اچھے سے کر سکتے ہیں لیکن میں ان الفاظ کا ذکر ضرور کروں گا جو فیس بک اور سوشل میڈیا میں انکے بارے کہے جا رہے ہیں۔ الفاظ بیچنے والے ایک بکاو کالم نگار، سیاہ کرتوت والے شخص،کرپشن سے عہدے لینے والے ، سیاست دانوں کے بغل بچہ اور لوٹے جیسے الفاظ ایک ایسے شخص کے لیے لکھے جا رہے ہیں جس نے اس ملک کے پرنٹ اور ٹی وی میڈیا کو ایک عمر دی ہے ، اتنی عمر کہ ان کے خلاف لکھنے والوں میں سے اکثر کے والد صاحبان بھی شائد تب پیدا نہ ہوئے ہوں۔چلیں سوشل میڈیا والوں کی وجہ سے ہم قائل ہو گئے کہ قاسمی صاحب کرپٹ بھی ہیں اور بکاو کالم نگار بھی، سیاست دانوں کے لوٹے بھی رہے اور اسی بنیاد پر عہدے بھی لیے ،جس کی وجہ سے وہ ایک اچھی زندگی گزارتے اور عیاشیاںکرتے رہے ہیں ۔ اب اس تصویر میں ایک اور شخص کو شامل کرتے ہیں، یہ میاں محمد صدیق ہیں۔ روزنامہ جنگ کوئٹہ میں سنیئر سب ایڈیٹر ہیں اور زندگی میں کئی صحافتی تنظیموں کے صدر اور جنرل سیکرٹری رہے جبکہ بلوچستان کے واحد صحافی بھی ہیں جن کو ضیا امریت میں کوڑے کھانے کا بھی موقع ملا۔ آجکل ان کے گردے خراب اور پھیپھڑوں میں پانی آ گیا ہے ۔ علاج کے لیے وہ اپنی جمع پونچی خرچ کر چکے ہیں جبکہ اب ان کے گھر والے کسی معجزے کے منتظر ہیں۔ یہ شخص بکاو بھی نہیں اور کرپٹ بھی نہیں ، ساری عمر کسی سیاست دان کا لوٹا بھی نہیں رہااور نہ سرکاری عہدوں میں نرم کرسیوں اور ٹھنڈے کمروں کے مزے لیتا رہا ہے۔ شائد اسی لیے آج اس کے گھر والے دروازے کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کوئی آ جائے اور مدد کا کوئی بہانہ ہو جائے کہ جسم اور جان کا رشتہ کچھ دن اور چل سکے۔ ۔۔
تو میرے ہم وطن دو دو ٹکے کے فیس بکیوں ، میں پوچھتا ہوں کہ آدھی صدی کے کالم نگار، ڈرامہ رائٹر اور صحافی قاسمی صاحب کے خلاف لکھنے والو مجھے بتاو کہ ایمانداری کا مول کیا ہے؟۔ کتنے لوگ ہیں جو ہاتھ پھیلانے سے پہلے محمد صدیق کی مدد کو پہنچ گئے تھے اور یہ محمد صدیق تو آج کا مقدمہ ہے اس سے پہلے کتنے ایماندار صحافی تمہاری مدد پانے میں کامیاب ہوئے۔ کتنے ایسے صحافی تھے جن کی سفید پوشی کا بھرم رکھنے میں تمہاری خاموش مدد شامل رہی ہے۔ کتنے ایسے ایماندار میڈیا ورکرز ہیں جن کو صرف سراہنے کے لیے تم نے ایک جملہ کسی کے سامنے کہا ہے اور ایسے لوگوں کو ایک کپ چائے پلاتے ہوئے ان کی ایمانداری کی تعریف کی ہے۔ ۔۔اور تم ہو کون کہ کوئی تمہیں جوابدہ ہو ۔ تم دو ٹکے کے لوگ، میرے ان سوالوں کو بھی کرپشن کا دفاع قرار دو گے لیکن یہ کرپشن کا دفاع نہیں ہے۔ کرپشن کی سزا ملکی قوانین میں موجود ہے جو ہر کرپٹ شخص کو ملنی چاہیے ، میرے سوالات اس سزا کے بعد طنز، تنقید اور تضحیک کے بارے میں ہیں کہ اگر واقعی تم لوگوں میں اتنا غصہ ہے تو پھر میڈیا میں موجود ایمانداروں کے ساتھ تمہارے حسن سلوک کی کوئی مثال کیوں نہیں ملتی۔ کسی کی تعریف کے لیے چار لفظ تمہاری پوسٹوں میں کیوں نہیں ملتے۔ یقینا تم دو ٹکے کے لوگ ہو، اسی لیے تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ، نہ کسی کے لیے مدد، نہ حوصلہ افزائی اور نہ چندپیارے بول۔ صرف طنز ، تنقید اور تضحیک کی کالک تمہارے دامن میں موجود ہے جو تمہاری پوسٹوں اور دل پرصاف نظر آتی ہے۔
چلتے چلتے روف کلاسرا صاحب سے ایک سوال کہ پاکستان میں کرپشن کے بارے جتنا بولتے اور لکھتے میں نے روف کلاسرا کو دیکھا ہے ، کوئی دوسرا نہیں دیکھا، ان سے پوچھنا تھا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ مضبوط آجکل سوشل میڈیا ہے جہاں ہر کوئی خدا بنا بیٹھا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا پر ایک طرف کرپشن اور عہدے ہیں، اچھی زندگی ہے، دوسری طرف ایمانداری اور گمنامی ہے، غربت ہے لیکن ان سب کے سامنے دو ٹکے کے وہ لوگ ہیں جو نہ کرپشن میں جینے دیتے ہیں اور نہ ایمانداری میں حوصلہ دیتے ہیں۔ ایک طالب علم جو ابھی صحافتی میدان میں قدم رکھ رہا ہے وہ کیا کرئے اور جو کرے وہ کیوں کرے۔
آپ پڑھنے والے بھی سوچیں کہ قاسمی صاحب اپنے نصف صدی سے زیادہ بڑے کیرئیر کے باوجود تضحیک کا سامنا کر رہے ہیں لیکن محمد صدیق جیسے لوگ اپنی ایمانداری کے باوجود مدد کے منتظر ہیں جبکہ دو ٹکے کے لوگوں کی دیواریں نفرت اور بے حسی سے آباد ہیں۔ کہیں آپ سب بھی خاموشی سے انہی دو ٹکے کے لوگوں کی مدد تو نہیں کر رہے اور میڈیا میں موجود ہر شخص کو کسی زبردستی کی راہ پر چلنے پر مجبور تو نہیں کر رہے ، کیونکہ زبردستی حکومتی ہو یا عوامی بہرحال نقصان کا باعث ہی بنتی ہے۔(خرم شہزاد)۔۔