تحریر: علی حسن۔۔
ملک انتہائی تشویشناک خراب معاشی صورت حال سے دوچار ہے۔ سیاسی جماعتیں پنجاب کی بیس نشستوں پر ضمنی انتخابات کے بخار میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے کامیابی کے لئے سارا زور لگا دیا ہے۔ ان حلقوں میں پولنگ 17 جولائی بروز اتوار کو ہونا ہے ۔ پنجاب میں تاجروں کو بازار رات 9 بجے بند کرنے کی پابندی میں مزید ایک ہفتے کی رعایت دے دی گئی ہے ۔ وجہ صرف انتخابات کی وجہ سے سہولت دینا مقصود ہے ۔ نوٹیفکیشن کے مطابق پنجاب بھر میں اس پابندی میں رعایت کا اطلاق 19 جولائی تک رہے گا۔ انتخابات 17جولائی کو ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ پیٹرولیم ڈویڑن کے مطابق پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 10 روپے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 25 روپے فی لیٹر تک کمی کی جاسکتی ہے۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فوری کمی کے لیے وفاقی کابینہ کی منظوری درکار ہو گی۔وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر 16جولائی سے قبل قیمتوں میں کمی نہیں کی جا سکتی ہے ۔یہ رعایتیں بظاہر انتخابی مہم کا حصہ محسوس ہوتی ہیں ۔
معاشی طور پر بد حال ملک کے وفاقی وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے ٹوئٹر پر آئی ایم ایف کا اعلامیہ شیئر کیا ہے۔ حالانکہ یہ معاہدہ منظوری کے لئے آئی ایم ایف کے بورڈ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ آئی ایم ایف سے پاکستان کو ساتویں اور آٹھویں قسط کی مد میں 1 ارب 17 کروڑ ڈالرز فراہم کیا جائے گا۔ معاہدے سے متعلق آئی ایم ایف کے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو طلب و رسد پر مبنی ایکسچینج ریٹ کا تسلسل برقرار رکھنا ہو گا، اس کے ساتھ مستعد مانیٹری پالیسی اور سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا ہو گی۔ عالمی مہنگائی اور اہم فیصلوں میں تاخیر سے پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہوئے، زائد طلب کے سبب معیشت اتنی تیز تر ہوئی کہ بیرونی ادائیگیوں میں بڑا خسارہ ہوا۔کرپشن کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان میں الیکٹرانک طور پر اثاثے ظاہر کرنے پر کام ہو رہا ہے، حکومتِ پاکستان نیب سمیت اینٹی کرپشن اداروں کی اثر انگیزی بہتر کرنے کے لیے کام کرے گی۔ پاکستان کو 1 ارب 17 کروڑ ڈالر دستیاب ہوں گے تاہم پاکستان کو حالیہ بجٹ پر سختی سے عمل کرنا ہو گا، صوبوں نے بجٹ خسارے کو محدود رکھنے کے لیے یقین دہانی کرائی ہے۔ عالمی حالات کے تناظر میں پاکستان کو اضافی اقدامات کے لیے بھی تیار رہنا ہو گا۔ پاور سیکٹر میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ معاشی استحکام کیلئے ایک فعال اور محتاط مالیاتی پالیسی پر عمل جاری رکھا جائے، اس کے علاوہ سماجی تحفظ سرکاری اداروں کی کارکردگی میں بہتری اور اصلاحات کا بھی کہا گیا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ قرض پروگرام بحال ہو گیا ہے ، تاہم قرض پروگرام کن شرائط پر بحال ہوا ہے نہ تو وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بتا رہے ہیں اور نہ ہیں آئی ایم ایف کی جانب سے کوئی اسٹیٹمنٹ سامنے آئی ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے اسٹاف لیول کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ یہ پروگرام آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی حتمی منظوری سے مشروط ہے۔ ایگزیکٹو بورڈ کے منظوری کے بعد 1 ہزار 177 ملین ڈالر کی قسط جاری کردی جائے گی ، اس طرح جاری پروگرام کی کل ادائیگی تقریباً 4.2 بلین ڈالر ہو جائے گی۔آئی ایم ایف ٹیم کی سربراہی کرنے والے نیتھن پورٹر نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان ایک چیلنجنگ اقتصادی موڑ پر کھڑا ہے۔ ایک مشکل بیرونی ماحول اس کی اندرونی پالیسیوں کے جڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے گھریلو مانگ غیرمتوازن ہو گئی ہے۔انہوں نے اہم پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ معاشی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے مالی سال 2022 میں پاکستان کو بڑے مالیاتی اور بیرونی خسارے کا سامنا کرنا پڑا ، جس کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہوا، اور زرمبادلہ کے ذخائر کو شدید دھچکا لگا۔معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین آج تک دو مرتبہ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام میں گیا ہے جبکہ بھارت نے آخر مرتبہ 90 کی دہائی میں آئی ایم ایف کا بیل آو ¿ٹ پیکج استعمال کیا تھا ، تاہم بھارت نے 2000 کے شروع میں تمام قرضے بمعہ سود ادا کر دیئے تھے۔معاشی تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ” آئی ایم ایف اپنے قرض کی واپسی کے لئے سخت شرائط عائد کرتا ہے ، لیکن ہمارے حکمران طبقے کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کی وجہ سے قرض ان کے مفادات کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے ۔ عوام سے بھاری ٹیکس بھی وصول کرلیے جاتے ہیں ، اشیائے ضروریہ پر غیرضروری ٹیکس لگا کر افراط زر کو بڑہاوا دیا جاتا ہے مگر سال کے آخری میں قرض وہیں کا وہیں کھڑا رہ جاتا اور سود کے تھپڑ مزید منہ پڑ رہے ہوتے ہیں ، اگر موجودہ حکمران واقعی ملک کے ساتھ مخلص ہیں تو انہیں ایسی پالیسیوں کو ترتیب دینا ہوگا جس سے ملکی معیشت بھی صحیح سمت پر آجائے اور قرض کی ادائیگی بھی ممکن ہو سکے۔ ورنہ پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے قارون کا خزانہ بھی کم ہوگا۔ ہمیں ایسے قابل لوگوں کو آگے لانا ہوگا جو اس ملک کو منجدھار سے نکال سکیں، حکومت کو آئی ٹی اور ایکسپورٹ کے شعبے پر خصوصی توجہ دینا ہوگا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف نے منتخب نمائندوں کے اثاثہ جات پبلک کرنے کا بھی مطالبہ کر رکھا ہے، آئی ایم ایف نے گریڈ17 سے 22 کے سرکاری ملازمین کے اثاثہ جات پبلک بھی کرنے کا کہا ہے ساتھ ہی ساتھ آئی ایم ایف نے احتساب سے مطعلق آئینی ترامیم پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔ تشویشناک معیشت کے وقت چین نے خبردار کیا ہے کہ ایشائی اقوام عالمی طاقتوں کا م ±ہرہ بننے سے گریز کریں۔انڈونیشا کے دارالحکومت جکارتہ میں آسیان سیکریٹریٹ میں ایک خطاب میں چین کے وزیرخارجہ وائینگ یی نے کہا ہے کہ خطے میں کئی ممالک پر دباو ہے کہ وہ جانبداری کا مظاہرہ کریں یا کسی ایک طاقت کی حمایت کریں۔ ایک ایسے خطے کو جسے جیو پولیٹیکل عوامل کی طرف سے تشکیل نو کا خطرہ لاحق ہو،جغرافیائی سیاسی حساب کتاب اور کسی بڑی طاقت کی دشمنی اور زبردستی سے شطرنج کے م ±ہروں کے طور پر استعمال ہونے سے محفوظ رکھنا چاہیے۔چینی وزیرخارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے خطے کا مستقبل ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔
موجودہ صورت حال میں پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ برقرار رکھنا بہت مشکل نظر آتا ہے لیکن اس کے ماضی اور موجودہ حکمرانوں نے معاملات کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اخراجات کرنے میں توغیر معمولی دلچسپی رکھتے ہیں لیکن بچت کے معاملے میں تمام ہی غیر سنجیدہ ثابت ہوئے ہیں۔حکومت سے وابستہ تمام کے تمام لوگ دولت مند ہیں ، اپنے خرچ پر کیوں نہیں ملک کی ”خدمت“ کرنے کے جزبے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ قوم کو یہ تو بتائیں کہ آئی این ایف اور دیگر غیر ملکی مالیاتی اداروں کے قر ضے اتریں گے کیسے۔ قرضے کی جو رقم ملنے پر پر حکمران لوگ خوشی کا اظہار کر ہے ہیں اس کا بڑا حصہ تو آئی ایم ایف کو سود کی مد میں ہی واپس چلا جائے گا۔ سود ادا کرنے کے لئے قرضہ لینے کا رجحان کب تک چلے گا ؟ کہیں تو انتہاءہونا ہوگی اور وہ انتہاءکیا ہوگی۔ قرضوں کی واپسی کے طریقہ کار، اس کے اسباب کے بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تو انجام کیا ہوگا ؟ سری لنکا میں معاشی بحران پر مظاہروں کے پیشِ نظر سری لنکن صدر گوتابایا راجا پاکسے ملک سے فرار ہو گئے۔برطانوی میڈیا کے مطابق سری لنکن صدر فوجی طیارے پر ملک سے فرار ہوئے ہیں۔ صدر کے فرار سے دو روز قبل ہزاروں مظاہرین نے صدارتی محل پر دھاوا بول کر قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن مظاہرین کے حملے سے قبل ہی صدر اور وزیرِ اعظم کو وہاں سے بحفاظت نکال لیا گیا تھا۔ (علی حسن)