تحریر: منصور آفاق۔۔
ایک مقروض اور مفلس ملک کا شہری ہونے کے سبب رات بھردماغ نے کئی خواب بُنے ۔نئے نظام کے کئی خاکے کھینچے۔ معاش کے کئی حل ذہن میں لہرا لہرا گئے ۔میں اٹھارہ سال برطانیہ کی دھند دیکھتا رہا ہوں ۔ وہاں کےمعاشی نظام کی یخ بستہ سرد مہریوں کا بغور جائزہ لیا ہے کہ ان کے معاش کی آگ اتنی مستحکم کیسے ہے کہ اپنے کچھ نہ کرنے والوں کو بھی گرم رہنے کی تمام سہولتیں فراہم کرتی ہے۔ میرے خیال میں اُس آتشیں نظام کی تھوڑی سی آنچ بھی یہاں نافذ کردی جائے تو ہم زندگی کی دھوپ کو کسی اور طرح سے دیکھنے لگیں گے ۔برطانیہ کی ہر کونسل یعنی بلدیہ مکانوں پرکونسل ٹیکس وصول کرتی ہے ۔بڑے بڑے گھروں کو سالانہ چار ہزار پونڈ یعنی تیرہ لاکھ روپےٹیکس دینا پڑتا ہے اور چھوٹے مکان والوں کو کم از کم ایک ہزارپونڈیعنی سوا تین لاکھ روپے۔اس نظام کی خوبصورتی یہ ہے کہ جوٹیکس دینے کے قابل نہیں ہوتے ،ان سے نہیں لیا جاتا۔الٹا انہیں کچھ دیا جاتا ہے۔
وہاں گاڑی ’’روڈ ٹیکس‘‘ ادا کرنے کے بعد سڑک پر دوڑسکتی ہے ۔روڈ ٹیکس ایک سو بیس پونڈ سے،ایک ہزار پونڈ سالانہ تک ہے ۔یعنی تقریباً تیس ہزار سےسواتین لاکھ روپے تک ۔وہاں ہر ڈرائیور کو انشورنس کرانا پڑتی ہے وگرنہ وہ گاڑی نہیں چلا سکتا۔پچیس سال کی عمر کے نوجوان ڈرائیور کی انشورنس دوہزار پونڈ سالانہ سے کم میں نہیں ہوسکتی۔ عمر جتنی بڑھتی جاتی ہے انشورنس کم ہوتی جاتی ہے۔
ہم صرف یہی ٹیکس پاکستان میں لاگو کردیں تو ہمارے معاشی مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے مکانوں میں صرف امیر لوگ رہتے ہیں اور بڑی گاڑیاں بھی انہی کے پاس ہوتی ہیں ۔ غریب آدمی تو چھوٹی گاڑی بھی نہیں رکھ سکتامگرہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے حکمرانی کا حق صرف امیر طبقے تک مختص کررکھا ہے۔اوروہ اپنے اوپر ٹیکس لگانےکو تیار نہیں ۔جیسے کوئی معاشی مشکل آتی ہے وہ غریبوں کا تھوڑا سا خون اور چوس لیتے ہیں ۔بے شک ہم نے بڑی محنت اور کوشش سے عام آدمی پر اقتدار کے دروازے بند کئے ہیں ۔قرض اتارنے کا ایک حل کسی نے بھیجا ہے ۔اس کا بھی فارمولا پیش خدمت ہے ،’’ تمام سول اور ملٹری کے افسروں ،موجودہ بھی اور ریٹائرڈ بھی ۔تمام پرائیویٹ اسکولز مالکان ،تمام پراپرٹی ڈیلرز، فیکٹریوں کے مالکان، ملز مالکان، بڑے آڑھتی،تاجران،تیس چالیس ایکڑ سے زیادہ اراضی کی ملکیت رکھنے والے زمین داروں کی تعداد ایک کروڑ سے کم نہیں ہوگی ۔ان سب سے گورنمنٹ چالیس چالیس ہزارروپے بطور قرض لےلے تو یہ رقم چار کھرب روپے ماہانہ بنتی ہے۔ اس کے بعد تینوں پارٹیوں کے الیکشن لڑنے والے پنجاب کے 297 ایم پی ایز۔سندھ کے130ایم پی ایز۔کے پی کے کے124ایم پی ایز۔بلوچستان کے65 ایم پی ایز۔336ایم این ایز ۔ان تمام کی کل تعداد تقریباً 2900 بنتی ہے۔ ان تمام سیاسی شخصیات سےپانچ کروڑ روپے فی کس لیا جائے ۔یہ رقم ایک سو چالیس ارب روپےسے زیادہ بن جائے گی ۔اس کے بعد ایک کروڑ ملک بھر کے چھوٹے سرکاری ملازمین جن سے صرف دو ہزارماہانہ بطور قرض لیا جائے تو ماہانہ بیس ارب بنتا ہے ۔صرف وفاقی ملازمین کی تعداد پندرہ لاکھ کے قریب ہے ۔بیس ہزار سے زائد انکم والے پرائیویٹ ملازمین کم ازکم پانچ کروڑ ہوں گے جن سے صرف پانچ سو روپے ماہانہ قرض لیا جائے جو پچیس ارب بنتا ہے ۔ کل رقم پانچ کھرب سے زیادہ بن جاتی ہے اور گورنمنٹ اپنے بجٹ میں سے اپنے ریونیو میں سے ایک کھرب ڈالے کل چھ کھرب روپے ۔ یعنی کہ یہ رقم تقریباً 34ارب ڈالر بنتی ہے۔فرض کیا جائے کہ پاکستان پر مجموعی طور پرسو ارب ڈالر قرضہ ہو تو تین ماہ کی قلیل مدت یعنی جولائی تا ستمبر میں قرضہ اُن کے منہ پر مارا جاسکتا ہےاور اسی پالیسی کے تحت اگلے تین ماہ اکتوبر تا دسمبر میں ہم آئی ایم ایف کو کہہ سکتے ہیں جتنا تم نے قرضہ دیا تھا اب تم اتنا ہم سے لے سکتے ہو،اور اگر یہی اکتوبر تا دسمبر کااتنابڑا ریونیو پاکستان اپنے دفاع ،ریلوے ،سڑکوں پرپی آئی اے اور دیگر اداروں پر لگا دے تو ہمارا ملک کہاں سے کہاں پہنچ سکتا ہے۔ صرف چھ ماہ میں مہنگائی کا تو نام ونشان ہی مٹ جائے گا ان شاء اللّٰہ۔ ان اداروں سے جو ریونیو آئے گا اس سےجس جس پاکستانی سے رقوم بطور قرض وصول کی گئی ہوگی، ان کو واپس لوٹانے کا سلسلہ شروع کیا جائے اوریہ رقم دو تین سال میں آرام سے واپس ہو جائے گی۔اور اگر کوئی حب الوطنی کے تحت دیا گیاقرضہ ملک سے واپس نہ لے تو یہ اور بھی اچھی بات ہوگی ‘‘۔
اس کے علاوہ بھی معیشت کی بحالی کے کئی منصوبے موجود ہیں ۔صرف عمل درآمد کی ضرورت ہے ۔ میں نے پہلےبھی ایک بار لکھا تھا کہ صرف ایک نیا شہر آباد کرنےکی ضرورت ہے ۔میں وہی جملے پھر درج کردیتا ہوں ، ’’ پنجاب کے درمیان میں ایک نیا شہر آباد کرنے کے متعلق سوچا جارہا ہے جسے پنجاب کا دارالحکومت بنایا جائے ۔اس کےلئے تین لاکھ کنال زمین کی تلاش جاری ہے ۔ایک لاکھ کنال پر سرکاری عمارتیں تعمیر ہوں گی۔ دو لاکھ کنال لوگوں کو فروخت کردی جائے گی۔کم ازکم ایک کنال کی قیمت دس لاکھ روپے ہوگی۔ دو لاکھ سے دس لاکھ کو ضرب دے کر دیکھ لیں کتنے پیسے بنتے ہیں۔ابھی ستر لاکھ کے قریب اوورسیز پاکستانی بھی موجود ہیں ،جو ایک دن میں پاکستان کا تمام قرضہ اتار سکتے ہیں ۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ انہیں یقین ہو کہ ہمارا سرمایہ کسی کی جیب میں نہیں جائےگا اورواقعتاً ملک کا قرضہ اتارنے کیلئے استعمال ہوگا۔ یعنی یہ سب کچھ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک آپ اپنے لوگوں کے دل نہیں جیت لیتے ۔ عوام آپ کے ساتھ نہیں کھڑے ہوتے ۔عوام پاکستانی حکمرانوں کا جب تک ساتھ نہیں دیتے ۔کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔قوم آپ کے ساتھ کیسے کھڑی ہوسکتی ہے اس کا صرف ایک ہی آسان سا نسخہ ہے کہ ملک پر سچ مچ عوامی نمائندوں کی حکومت ہو۔(بشکریہ جنگ)