aik tabah saath | Imran Junior

قرار لوٹنے والے۔۔

تحریر : علی عمران جونیئر

دوستو،ایک خبر کے مطابق امریکی فوج کی خاتون اہلکاروں کو بال لمبے کرنے، بالیاں پہننے، لپ اسٹک اور نیل پالش لگانے کی اجازت دیدی گئی۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی فوج میں شامل خواتین کے لیے ’’گرومنگ پالیسی‘‘ پر نظر ثانی کی گئی ہے جس کے تحت وہ مرضی سے لمبے بال کرسکتی ہیں، کوئی ہیئر اسٹائل اپنا سکتی ہیں اور جُوڑا بھی باندھ سکتی ہیں۔جو خواتین چٹیا پسند کرتی ہیں انہیں اس کی بھی اجازت دیدی گئی ہے تاہم ہیئر اسٹائل کے چناؤکے لیے اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ آرمی کیپ یا ہیلمٹ پہننے میں پریشانی نہ ہو۔ اس کے علاوہ جو خواتین بال منڈوانا چاہتی ہیں تو انہیں روکا نہیں جائے گا۔پالیسی میں تبدیلی سے امریکی فوج کی خاتون اہلکار ڈیوٹی کے دوران بناؤ سنگھار بھی کر سکتی ہیں جن میں کانوں میں بالیاں پہننا، فیس پاؤڈر، لپ اسٹک اور نیل پالش لگانا بھی شامل ہیں۔واضح رہے کہ امریکا میں خواتین فوجی اہلکاروں کو ٹریننگ اور دیگر پیشہ ورانہ کاموں کی انجام دہی کے دوران ایک مقررہ حد تک ہی بال بڑھانے کی اجازت تھی جب کہ بناؤ سنگھار پر مکمل پابندی عائد تھی۔۔

جب یہ خبر ہم نے باباجی کو رات لگی محفل میں سنائی تو وہ مسکرا کر بولے۔۔ امریکی فوج نے پہلے ہی دنیا کی ناک میں دم کیا ہوا تھا، اب اس نئی پالیسی کے بعد تو یہ نوجوانوں کا قرار بھی لوٹ لے گی۔۔ باباجی چونکہ برجستہ بولتے ہیں اس لئے ان کے ہر جملے کا باقاعدہ لطف لیاجاتا ہے۔۔ باباجی کے مطابق کورونا نے پہلے ہی قرار لوٹا ہوا ہے۔۔ لیکن گیلپ سروے کے مطابق 50فیصد پاکستانی ماسک نہ پہننے پر بالکل بے فکر نظر آئے جبکہ دکانوں پر51فیصد اوردفاتر میں50فیصد افراد ماسک نہ پہننے پرمطمئن پائے گئے۔ 46فیصد افراد دوسروں کے ماسک نہ پہننے پر تشویش میں مبتلا پائے گئے۔ 78فیصد پاکستانیوں نے کورونا سے بچاؤ کیلئے ماسک پہنناضروری قراردیا۔ 51فیصد نے ہاتھ دھونے اور47فیصد نے ہینڈ سینیٹائزر کو ترجیح دینے کا کہا۔۔کورونا وائرس اور اس کی احتیاطی تدابیر اپنی جگہ ۔۔لیکن ماہرین نے ایک اور عجیب انکشاف کرکے ہمیں دہلا دیا ہے۔۔کورونا وائرس سے بچنے کے لیے فیس ماسک انتہائی ناگزیر چیز ہے تاہم اب اس حوالے سے ماہرین نے ایک اور مشورہ دے ڈالا ہے کہ ایک وقت میں لوگوں کو تین فیس ماسک استعمال کرنے چاہئیں تاکہ انہیں وائرس سے زیادہ تحفظ ہو سکے۔ ورجینیا ٹیک یونیورسٹی کے ماہرین نے اپنی ایک تحقیق میں بتایا ہے کہ اگر تین فیس ماسک بیک وقت پہنے جائیں تو وہ انفیکشس اجزاکو 90فیصد تک روک دیتے ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر انتھونی فاؤسی کا کہنا تھا کہ ’’سرجیکل فیس ماسک کی عموماً دو تہیں ہوتی ہیں چنانچہ اگر لوگ عام سرجیکل فیس ماسک کے ساتھ ایک اضافی کپڑا استعمال کریں۔ اس کپڑے کو نیچے رکھ کر اوپر فیس ماسک پہن لیا جائے تو سرجیکل فیس ماسک بھی اچھی کوالٹی کے فیس ماسک جتنا موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں یہ بھی 90فیصد تک وائرس کو روک سکتا ہے۔ کچھ ایسے فیس ماسک بھی ہیں جن کی تین یا اس سے بھی زیادہ تہیں ہوتی ہیں۔ ان کے ساتھ اضافی کپڑے کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسے بند مقامات (گھر یا دفاتر وغیرہ) جہاں ہوا کی آمدو ورفت کم ہو وہاں کھانسنے کے بجائے باتیں کرنے سے کورونا وائرس پھیلنے کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ ایسے ماحول میں کورونا وائرس 6 فٹ سے زیادہ فاصلے میں چند سیکنڈز کے اندر اندر ہی منتقل ہوسکتا ہے۔ اس اسٹڈی کے محققین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے صرف سماجی دوری کافی نہیں بلکہ اس کیلئے فیس ماسک کا استعمال اور وینٹی لیشن کا ہونا اہم ہے۔

باباجی کہتے ہیں۔۔صرف انگریزوں کی ویکسین کے بجائے ہمیں کرونا کا دیسی علاج ڈھونڈھنے پہ بھی ریسرچ کرنی چاہئے جیسا کہ ہمارے پرکھوں نے مرگی کا علاج مریض کو جوتا سنگھانے میں دریافت کیا تھا۔ ۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ ۔۔کرونا نے انسانیت زندہ کر دی ٹیسٹ ایک بندہ کراتا ہے،دعائیں پورا محلہ کرتا ہے۔۔ ریل کے سفر کے دوران ایک صاحب کی جب بھی سامنے بیٹھی خاتون سے نظر ملتی مسکرا دیتے۔ جب یہ چوتھی بار ہوا تو خاتون بھی مسکرائیں اور کہا کہ جب بھی آپ مسکرا کر مجھے دیکھتے ہیں میرا دل کرتا ہے کہ آپ سے ملاقات ضرور کرنی ہے۔۔یہ سن کر صاحب کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیا کریں،فوراً بولے۔ ۔جی ضرور جب آپ کہیں،کہاں ملنا ہے؟؟خاتون نے اپنا کارڈ دیا اور کہا۔۔میرے کلینک میں،میں ڈینٹسٹ ہوں۔آپ کے دانت میلے کچیلے، ٹیڑھے میڑھے اور کالے ہیں۔سائیڈ کی دو داڑھوں میں کیڑا بھی لگا ہوا ہے،مجھے لگتا ہے شاید ایک ملاقات کافی نہ ہولیکن یہ گارنٹی ہے کہ مجھ سے ملاقات کے بعد آپ مسکراتے ہوئے اتنے برے نہیں لگیں گے۔۔اس کے بعد سے وہ صاحب سوچ رہے تھے کہ کاش وہ ماسک لگائے لگتے تاکہ محترمہ کے سامنے کم سے کم ان کے دانتوں کی تو پول نہ کھلتی۔۔

ہمارے پیارے دوست گزشتہ دنوں بینک سے قرضہ لینے گئے، بینک منیجر نے ان سے پوچھا،آپ کیا کرتے ہیں؟؟ وہ عاجزی سے بولے کہ میں آپ کی طرح منیجر ہوں۔۔بینک منیجر کا رویہ اچانک تبدیل ہوگیا، بانچھیں کھل اٹھیں، احترام سے کھڑا ہوا، ہمارے پیارے دوست سے ان کے گھر والوں کا حال احوال پوچھا،پھر گھنٹی بجاکر چائے اور بسکٹ لانے کا کہا۔۔اس کے بعد ہمارے پیارے دوست سے پوچھنے لگا کہ ۔۔ آپ کہاں کے منیجر ہیں؟ہمارے پیارے دوست نے جواب دیا۔۔ تین واٹس ایپ گروپوں کا منیجر ہوں۔۔یہ سن کر منیجر نے اسے کھڑے کھڑے کر بینک سے باہر نکال دیا۔ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں۔۔ یار ظالم نے سامنے رکھے بسکٹ پر ہاتھ تک لگانے نہیں دیئے۔۔ایک خاتون نے اپنی مہران گاڑی ایک دوسری خاتون کی برانڈ نیو ٹیوٹا کرولا میں ٹھوک دی۔کرولا والی خاتون نے اتر کے مہران والی کو خوب باتیں سنائیں اور کہا کہ اس کے نقصان کا ہرجانہ بھرے۔مہران والی باجی نے اپنے شوہر کو فون کیا تو جواب ملا کہ میں بہت مصروف ہوں اسلئے نہیں آسکتا لہٰذا اپنے طور پہ معاملہ طے کرلے اور مطلوبہ رقم دے دلا کے جان چھڑا لے۔کرولا والی بے بی نے اپنے بوائے فرینڈ کو فون کیا کہ جانو وہ جو کرولا تم نے مجھے برتھ ڈے پہ گفٹ کی تھی وہ ایک مہران والی کمینی نے ٹھوک دی ہے لہٰذا جلدی پہنچو اور نقصان کے پیسے بتاؤ، مجھے بہت صدمہ اور غصہ آرہا ہے۔تھوڑی دیر میں کرولا والی بے بی کا بوائے فرینڈ جائے وقوعہ پر پہنچ جاتا ہے اور وہ انسان بدقسمتی سے مہران والی باجی کا شوہر نکلتا ہے۔اس کے بعد کیا ہواہوگا،یہ سوچنا ہمارا نہیں آپ کا کام ہے۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔مرد شیو کر کے عورت سے برابری چاہتا ہے اور عورت پردہ نہ کر کے مرد سے برابری چاہتی ہے ،خدا کی تقسیم سے ناخوش دونوں خسارے میں ہیں۔۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

bharam baazian chief editor police ke hatthay charh gya

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں