تحریر: علی عمران جونیئر
دوستو۔۔ دس روز پہلے عمران جونیئر ڈاٹ کام پر ہم نے ایک تحریر میں قومی اخبار والوں سے کہا تھا کہ قومی والوں سائبر کیس تو بنوادو۔۔ لیکن ہماری اس تحریر کے بعد تو ہمیں غائبانہ دھمکی دینے اور سائبر کیس کرنے کے دعوے داروں کو تو جیسے سانپ ہی سونگھ گیا، ابھی تک ہم منتظر ہیں کہ قومی والے شاید اب ایف آئی اے سے رجوع کریں لیکن کوئی ہمت ہی نہیں کررہا۔۔ خیر ہم نے اپنی گزشتہ تحریرمیں آپ لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ قومی اخبار کے بانی الیاس شاکر مرحوم کی پہلی برسی کے حوالے سے ہم کچھ انکشافات کریں گے۔۔ لیکن انکشافات کرنے سے پہلے آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ اکیس ستمبر کا دن قومی اخبار کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، جب اس کے قارئین کو اندازہ ہوگیا کہ واقعی قومی اخبار کا شاید اب کوئی والی وارث نہیں رہا۔۔
یہ توہم پہلے بتا چکے ہیں کہ اخبار کا پرنٹر اور پبلشر سوسائٹی قبرستان میں مدفون ہے نہ کوئی ایڈیٹر ہے نہ ایڈیٹوریل بورڈ ہے21ستمبر کو اخبار مارکیٹ میں آیا تو قارئین کو یہ جان کرحیرت ہوئی کی اخبار کے فرنٹ پیج پر قومی اخبار کی لوح تھی جبکہ بیک پیج پر روزنامہ ریاست کا بیک پیج جو صبح میں پرنٹ ہوچکا تھا وہ قومی میں دوبارہ پرنٹ ہوکیا یہ پاکستان کی صحافتی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ کسی اخبار میں دوسرے اخبار کا صفحہ پرنٹ ہوجائے شہر میں یہ افواہیں گردش کرنے لگی کہ قومی اخبار بند ہوگیا ۔۔ صحافتی حلقوں میں یہ خبریں گردش کررہی تھی کہ شاید ایک سال بعد محکمہ اطلاعات یا ڈپٹی کمشنر کی پریس برانچ کو ہوش آگیا کہ ایک مردہ شخص اخبار کا پرنٹر اور پبلشر کیسے ہوسکتا ہے؟؟ شاید اسی لئے اخبار کا ڈکلریشن منسوخ کردیا ہو لیکن ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں تھی قارئین کے دفتر میں فون آئے تو اخبار کی مینجمنٹ جو شام کو سو کر اٹھتی ہے دوپہر کو اٹھ گئی ۔۔
سوال یہ پیدا ہورہا تھا کہ یہ کیسالاورث اخبار ہے ؟؟ آفس سے میل پلیٹ ڈویلپر والے کوبھیجی گئی ۔۔۔حاتمی ٹریڈرز کےپلیٹ والے نے قومی اخبار کے بیک پیج کے بجائے ریاست کا بیک پیچ لگا کر پلیٹ بنا کر پریس بھجوا دی، پریس کے عملے نے بھی اخبار پرنٹ کردیا،اخبار پرنٹ ہوا، حیدرآباد کے بعد کراچی ایڈیشن بھی پرنٹ ہوا لیکن پریس انچارج سمیت کسی کو ہوش نہیں تھا کہ ایک نظر اخبار کو دیکھ لیں کہ کیا پرنٹ ہورہا ہے اور کیسا پرنٹ ہورہا ہے؟؟
پپو نے بتایا ہے کہ پریس انچارج کلر اخبار پرنٹ ہوتا ہے تو کلر سیکشن میں آنے سے گریز کرتے ہیں اخبار کتنا پرنٹ ہو رہا ہے یہ سب نگرانی ایجنٹ اور بائنڈر پر چھوڑ دیتے ہیں انکو بھی دفتر سے فون آنے پر معلوم ہواکہ یہ غلطی ہو گئی ہے جس پر اس نے اپنا سارا نزلہ مشین والوں پر گرادیا۔۔ شام کو دفتر میں اس حوالے سے میٹنگ بھی طلب ہوئی۔۔میٹنگ کی تفصیل بتانے سے پہلے آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ الیاس شاکر مرحوم کی دیرینہ خوہش تھی کہ اخبار کی طباعت بہت خوبصورت ہو اس لئے اپنی زندگی کے آخری ایام میں دنیا کی بہترین ویب مشین ہیریس2000 امریکہ سے امپورٹ کرکے لگوائی تھی انہوں نے مشین کا انتظام بھی پاکستان کے صف اول کے مشین کے استاد حبیب کے حوالے کی اس مشین کی تنصیب کے بعد قومی اخبار دشمن سرگرم ہوگئے تھے پریس کو بند کروانے کی سازش کررہے تھے اس سے نمٹنے کے لئے مرحوم نے اپنے قابل اعتبار افراد کی ٹیم کو پریس کے امور کی نگرانی پر لگوایا تھا۔۔
قومی اخبارکے غلط پرنٹ ہونے کی سازش جلد بے نقاب ہوگئی جب ایک انتظامیہ کے اعلی افسر نے جو شام کو صرف چار گھنٹے کے لئے دفتر آتے ہیں دفتر میں میٹنگ سے قبل ہی گھر سے فون پر یہ احکامات دے دیئے کہ پریس کو تالا لگادو ہم قومی اخبار باہر سے پرنٹ کروائیں گےانہوں نےقیوم پریس کے مالک قیوم کو قومی اخبار کی پرننٹنگ کا ٹھیکہ دینے کے لئے بلوالیا انکی مدد کے لیئے ایک اور نامی گرامی کیک بیک صاحب میدان میں آگئے، کک بیک صاحب کی پوری کہانی اگلی قسط میں منظرعام پرلائیں گے کہ ۔۔ شاکرصاحب کی دونوں فیملیز کو کس طرح چونا لگا رہے ہیں کروڑوں روپے کے گھپلے کرچکے ہیں ان سے نمٹنے کے لئے دونوں فیملیز ایک پیج پر آگئی ہیں بہت جلد ایک افسر متعین ہونیوالا ہے جو انکے ہوش ٹھکانے لگادے گا خیر یہ بات تو کلیئر ہوگِئی تھی یہ سارا کھیل قومی پریس کو تالا لگانے کے لئے ہوا ۔۔شام کو میٹنگ میں مرحوم کی دونوں فیملیز کے علاوہ مرحوم کے انتقال کے بعدپہلی بار قومی اخبار کے ڈپٹی ایڈیٹر کو بھی مدعو کیا گیا نامی گرامی افسر نے بتایا کہ میں نے پریس کو تالا لگادیا استاد حبیب کا ٹھیکہ ختم کردیا ۔۔ قیوم کے پریس میں اخبار پرنٹ ہوگا ۔۔ عبدالقیوم نے بتایا کہ آج جو غلطی ہوئی ہے کسی طور پر مشین والے اسکے زمے دار نہیں ، یہ غلطی میرے پریس میں بھی ہوسکتی ہے مشین والا پرنٹنگ چیک کرتا ہےاگر پرنٹنگ خراب ہوتی تو اسکا زمے دار مشین مین ہوتا آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہے کہ استاد حبیب جیسا مشین مین آپکے پاس ہے جس کوالٹی کا پرنٹنگ یونٹ آپکے پاس ہے وہ کراچی میں کسی پرائیویٹ پریس کے پاس نہیں ہے میٹنگ میں موجود قومی اخبار کے مالکان نےپریس کو تالا لگانے کے اقدام پر حیرت کا اظہار کیا پریس کو بند کرنے کے فیصلے کو مستردکیا یہ بات برسراقتدار مافیا کو ناگوار گزری ۔۔حاتمی ٹریڈرز نے یہ اعتراف کیا کہ پلیٹ ڈیولپ کرنے میں غلطی ہوئی ۔۔۔اس نے یہ بھی بتایا کہ آپکا انچارج میرے دفتر آکر اسٹاف کو ہراساں کرتا ہے جس سے کام میں تاخیر ہوتی ہےاس لئے غلام رسول کے حاتمی ٹریڈرز پر جانے پر پابندی عائد کردی گئی۔۔ حاتمی ٹریڈرز سے معاہدہ ختم کرکے عکاس گرفک سے پلیٹ بنوانے کا فیصلہ ہوا۔۔ عکاس گرافک حاتمی ٹریڈرز سے مہنگا کام کرتا ہے لیکن شاید کوئی “چمک “تھی جو پلیٹ بنانے کا ٹھیکہ دوبارہ عکاس کو مل گیا ۔۔ہر زی شعور آدمی کے لئے یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ پلیٹ غلط کیوں بنی کہ عکاس کے پاس یہ کام شفٹ ہوجائے ۔۔پپو کے مطابق پلیٹوں کا کام عکاس گرافگ منتقل کرنے کے سب سے بڑے مخالف اکاونٹ سیکشن کے ایک مخلص کارکن (نون بھائی ) تھے انھوں نے ہی پلیٹ کا خرچ کم کیا عکاس کی مہنگے داموں پلیٹ ڈویلپ کرنےاور اشتہار کے حصول کے لیئے لاکھوں کی کک بیک دینے کے سخت مخالف تھے۔۔پپو کے مطابق حاتمی ٹریڈرز کے خاتمے کے بعد پریس انچارج غلام رسول سے پوچھ گچھ کی تو اس نے یہ جملہ کہہ کر بات ختم کردی کہ غلطی ہوگئی ۔۔برسراقتدار مافیا غلام رسول کو ہٹا کر صغیر نامی شخص کو پریس کےاختیارات دینا چاہتی ہےصغیر ماضی میں پریس سے حیدرآباد کا اخبارموٹرسائکل لےکر جاتا تھا بڑی مہارت سے نائٹ شفٹ میں نوکری کرلی اور اب دن میں بھی پریس کے تمام امور اسکےحوالے کرنے کی تیاری ہورہی ہے میٹنگ میں مشین مین شہزاد بھی شریک تھاشہزاد کی ایک انگلی حال ہی میں پریس میں آکر کٹ گئی تھی جسکاعلاج مالکان کی ہدایت پر ایجنٹ نے اچھے اسپتال میں کرایا تھالیکن مافیا کو یہ بات پسند نہ تھی شہزاد مشین مین نے کہا کہ اگر پرنٹنگ خراب ہوتی تو ہماری زمے داری ہوتی۔۔پپو کے مطابق قومی اخبار کے برسراقتدار ٹولے نے اکیس ستمبر کو قومی اخبار کے بلنڈر کی تمام زمےداری استاد حبیب پر عائد کردی اور اور ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی سنادیا کہ جو اخبار واپس آئے گا اس کی ادائیگی استاد حبیب کریں گے، ساتھ ہی مشین مین شہزاد کے علاج کی ادائیگی سے بھی صاف انکار کردیا۔۔تاہم کسی نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اخبار کی ساکھ کو کتنا نقصان ہوا32سال کی دن رات محنت سےبننے والی قومی اخبار کی ایمپائرلرز اٹھی اس تمام فیصلوں میں زاتی پرخاش نکالی گئی ایک سال میں شاکر صاحب کی فیملیوں کو یہ بات تو سمجھ میں آگئی کہ دونوں فیملیز کی عدالتی جنگ کا فائدہ اٹھاکر قومی آخبار کی آمدن پر کون قابض ہوگیا۔۔
قومی اخبار کے حوالے سے کہانیاں بے شمار ہیں۔۔ تحریر کچھ طویل ہوگئی ، اس لئے برسی کی تقریب کا اندرونی احوال اگلی قسط میں۔۔ساتھ ہی آپ کو یہ بھی بتائیں گے ،برسراقتدار ٹولہ کیا کچھ کررہا ہے؟ صرف ایک اشتہاری ایجنسی کو لاکھوں کا کیک بیک کون دے رہا ہے؟ بلڈرز کے دفاتر میں جاکر خود کو ایڈیٹر ظاہرکرکے کون وصولیاں کررہا ہے؟، دیہاڑی مار گروپ کے حوالے سے انکشافات کی سیریز ابھی آنا باقی ہے۔۔ بس تھوڑا سا بریک ۔۔ اگلے ہفتے نئی قسط کے ساتھ حاضری دیں گے۔۔(علی عمران جونیئر)۔۔
نوٹ: قومی اخبار کا برسراقتدار ٹولہ یا قومی کی انتظامیہ یا اس کا کوئی ترجمان اگر اس حوالے سے اپنا کوئی موقف دینا چاہے تو ہمیں تحریری شکل میں دے سکتا ہے، ہم اسے بھی اگلی قسط میں ضرور شائع کریں گے۔۔