تحریر: سید بدرسعید۔۔
جانے یہ کیا چل رہا ہے ۔ تین چار دن قبل ایک معروف اینکر کے خلاف لاہور کے تھانیدار نے ایف آئی آر درج کروا دی جس کے مطابق اینکر کسی بندے کو چھڑوانے کے لیے تھانیدار کو دھمکیاں دے رہے تھے ، اس سے پہلے ایک خاتون اینکر نے اپنے ملازمین کو تنخواہ دینے کی بجائے پرچہ درج کروا دینے کی عادت کی وجہ سے شہرت پائی ۔ آج صبح ایک دوست نے ملتان کے ایک صحافی کا سٹیٹس شیئر کیا تھا جس میں صحافی بھائی دہائی دے رہے تھے کہ ان کے گھر صبح پولیس نے ریڈ کیا ہے اور دو دن میں سی پی او ملتان انہیں مقابلے میں مروا دیں گے ۔ مجھے کچھ حیرت ہوئی کیونکہ سی پی او ملتان اس کے برعکس مزاج کے ہیں لیکن معاملہ بہرحال سنگین نوعیت کا تھا۔ میں نے فورا ذاتی طور پر اس معاملہ کو چیک کیا اور پولیس کے سینئر افسران سے بھی رابطہ کیا ۔ اب تک جو صورت حال واضح ہوئی ہے اس کے مطابق وہ رپورٹر ایک چینل کے نمائندہ ھیں اور ملتان پولیس کو ان سے کوئی ایشو نہیں ہے لیکن ان کے بھائی مقدمہ نمبر 408/19 مورخہ 19۔4 ۔6 بجرم 302۔324۔148۔149۔109 ت پ 7ATA تھانہ گلگشت میں موقع کے گواہ اور مضروب مقدمہ ھیں اور پولیس انہی کا پتہ کرنے ان کے گھر گئی تھی جس پر نمائندہ بھائی نے برا منایا کہ میرے گھر کیوں پولیس آئی ھے۔ میرے خیال میں صحافی ہونا قابل فخر بات ہے لیکن اس بنیاد پر پورے خاندان کو قانون سے ماورا نہیں سمجھا جا سکتا ۔ المیہ یہ نہیں ہے کہ یہ صحافی یا ان کے بھائی خود کو قانون سے برتر سمجھتے ہیں ، المیہ یہ ہے کہ اصل ایشو کو چھپا کر مظلومیت کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے ۔ میری تو سارے دن کی محنت ضائع گئی نا کہ جانے کیا سٹوری ہے جو ایک صحافی کو دو دن قبل اس کو مقابلے میں پار کرنے کا بتا دیا گیا ہے ۔ حد ہے یار (سید بدر سعید )
عمران جونیئرڈاٹ کام اور اس کی پالیسی اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر۔۔