تحریر: سید عارف مصطفیٰ
ملک کا موسٹ وانٹیڈ مجرم عابد علی جس قدر آسانی سے پولیس سے صرف دس فٹ کے فاصلے سے بچ کے نکل گیا وہ محکمہء پولیس اور اس کے افسران کی بدترین نالائقی پہ مہر تصدیق سے ہرگز کم نہیں ۔۔ جی ہاں، یہ اس جمعرات 17 ستمبر کی شام کی بات ہی تو ہے کہ جب وقوعہ کے دسویں روز بھی وہ آزادی سے اپنی سالی مسماۃ کشور سے ملنے ننکانہ صاحب پہنچا تھا اور کمال اعتماد اور بیخوفی یہ کہ اس کا حلیہ اس وقت اس بھی بدلا ہوا نہیں تھا کیونکہ علاقے کے لوگوں نے اسے دیکھتے ہی جھٹ پٹ 15 پہ پولیس کو اطلاع کردی تھی ۔۔۔ لیکن ایس ایچ او صاحب کو ملک کے اس سب سے ہائی پروفائل مجرم کا سراغ مفت میں بیٹھے بٹھائے مل جانے کے باوجود وہاں پہنچنے میں پورے 25 منٹ لگے ۔۔ جی ہاں اتنا وقت کہ جتنی دیر میں اسلام آباد سے اڑنے والی فلائٹ لاہور کی حدود میں داخل ہوچکی ہوتی ہے۔۔۔ اور جیسے تیسے کرکے محض 3 سپاہیوں کے ساتھ جب ایس ایچ عبدالخالق وہاں پہنچا تو بالار پارک میں مجرم عابد علی ابھی بھی موجود تھا مگر محض دس فٹ کے فاصلے سے بچ کر صاف نکلنے میں کامیاب رہا ۔۔۔ ایک وی آئی پی موومنٹ پہ درجنوں موبائلوں اور سینکڑوں پولیس اہلکاران لاد کے فٹافٹ پہنچنے والے یہ لوگ سفاک اور ثابت شدہ مجرموں کو گرفت میں لینے کے لئے جس بددلی اور کام چوری کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ واقعہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔۔
ایس ایچ او نے تو یہ تساہل برتا کیونکہ وہ یقینناً ایک ایسے مجرم کا سامنا کرنے سے کترا رہا ہوگا کہ جسکے مسلح ہونے میں کوئی شبہ نہ تھا اور سزائے موت سر پہ کھڑی ہونے کے سبب جو کچھ بھی کرگزرنے سے خائف نہ تھا اور ایس ایچ او ایسے معاملوں میں جان کو خطرے میں ڈالنا بیوقوفی باور کرتا ہوگا مگر سوال یہ ہے کہ دس روز قبل موٹر وے پہ وقع پزیر ہونے والے جس وحشیانہ و دلدوز واقعے نے سارے ملک کو رنجیدہ کردیا تھا کیا اس نے پولیس افسران کے ضمیر میں اتنی خلش بھی نہیں پیدا کی کہ وہ اس مجرم کے چند خاص رشتے داروں کے گھروں کی نگرانی ہی کا فول پروف اہتمام کرپاتے ۔۔۔ عابد علی کے اہل محلہ نے تو یہ تک بتایا ہے کہ وہ تو واردات کے بعد پورے دو روز اپنے گھر پہ ہی موجود رہا تھا جبکہ اس واردات کے مجرم کے طور پہ تو دوسرے روز ہی اسکا نام سامنے آگیا تھا اور میڈیا پہ جس کی مسلسل بہت تشہیر بھی ہورہی تھی ۔۔۔ مگر پولیس افسران کی سوچ اسکے گھر کی جانچ تک پہنچنے میں دو روز لگ گئے ۔۔۔ اور پھر جب دو دن بعد پولیس اسکے گھر پہنچی تو وہ وہاں اس وقت آرام سے قلفی کھارہا تھا اور فون پہ باتیں کررہا تھا اور پھر پولیس کو آتا دیکھ کر باآسانی نکل بھاگنے میں کامیاب رہا تھا گویا پولیس کی نفری اس خصوصی احتیاط سے وہاں پہنچی تھی کہ اس ایک اکیلے بندے کے فرار کے رستے بالکل بند نہ ہونے پائیں ۔۔۔
لیکن ان سب عظیم کوتاہیئوں کے حساب کتاب کے کھاتے میں اگر برق گرے گی تو بیچارے تھانیداروں پہ ۔۔۔ متعلقہ ایس پی کا بال بھی بیکا نہ ہوگا کہ آخر اتنے بڑے جرم کے ذمے دار سے نپٹنے کے لئے تم نے مناسب حکمت عملی کیوں اختیار نہیں کی اور ضلعی پولیس کے کماندار ہوتے ہوئے تم نے اس معاملے میں آخر کیا مثبت بھاگ دوڑ کی ۔۔۔ اس شدید بری کارکردگی اور مجرمانہغفلت و نالائقی پہ کیوں تمہارا مکو نہ ٹھپا جاوے ۔۔ بلا کسی تذبذب کے عرض ہے کہ ہمارے ملک میں پولیس کی کوتاہی کی درستگی کا راز تھانیدار کو لٹکانے سے زیادہ اسکے بڑے کماندار کی ٹھونک پیٹ میں چھپا ہوا ہے مگر یہ بات کرتے ہوئے سب کی ٹانگیں کانپتی ہیں ۔۔۔ اکا دکا اچھے افسران کی بات نہیں لیکن سچ یہ ہے کہ زیادہ تر ضلعی افسران اشرافیہ سے آئے ہیں یا شرافیہ کا حصہ بننے کے لئے بیتاب ہیں اور یہی روپ دھارن کرنے کے لئے وہ سلطنت شغلیہ کے وہ شہزادے بنے رہتے ہیں ہیں کہ جومتعدد ایسے شغل پالے ہوئےہیں کہ انہیں ان سے فرصت ہی نہیں مل پاتی اور یہ لوگ جب کبھی اپنے ماتحتوں کے دفاتر آبھی پائیں تو اسے دورے کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ انہیں روز روز نہ سہی ہر دوسرے تیسرے دن ہر تھانے پہ چھاپے مارنے چاہیئیں – چند لوگ شاید بہتر بھی ہوں مگر زیادہ تر بلکہ پولیس افسران کی عظیم اکثریت حکمرانی کے خمار میں مبتلا دکھائی دیتی ہے – اکثر کو کرسیوں پہ اینڈنے ، زیادہ سے زیادہ مال کمانے کے رستے تلاش کرنے اور اشرافی احباب کی محفلیں سجانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیونکہ انکی دانست میں ڈیپارٹمنٹ کام تو جیسے ماتحتوں اور نچلے لوگوں کا ہی کام ہے ۔۔ بیشتر ایس پی حضرات کی دولتمندی اور عیش پرستی کی کہانیاں کسی سے ڈھکی چھپی ہی نہیں اور اسی باعث انکے ماتحت بھی بیخوف ہیں کیونکہ وہی تو مال بٹورنے میں انکے مددگار ہیں اور اپنے لیئے بھی راحتوں کے انبار لگائے چلے جاتے ہیں ۔۔۔ عیش و آرام کی نوبت یہ ہے کہ کئی ایس پی حضرات کی دیکھا دیکھی بہتیرے ڈی ایس پی اور ایس ایچ اور حضرات نے بھی اپنے دفتر کے پچھواڑے یا محلقہ کمرے میں ہی آرام کرنے کی سہولت کے نام پہ شبستان سجارکھے ہیں ۔۔۔ ایسے میں سارے کام کا بوجھ بہت نیچے موجود اہلکاروں پہ پڑتا ہے اور وہ اپنے افسران کی ان رنگ رلیوں اور اپنی بے بسی کا سارا عتاب سائلین پہ اتارتے رہتے ہیں
بہت سادہ سا معاملہ ہے ، ہر ضلع کے ہر بڑے جرم کا ذمہ دار متعلقہ ایس پی کو ٹہرادینے کا اعلان کرکے دیکھیئے اوربڑا جرم وقو پزیرہونے پہ اس ضلع کے ایس پی کو غفلت کا ذمہ دار ٹہرا کراور نوکری سے برخواست کرکے جیل بھیجنے کا اہتمام کرکے دیکھیئے ۔۔۔ سب کچھ آناً فاناً بدلنے لگے گا ۔۔۔ بلبن اور علاءالدین خلجی اور شیرشاہ سوری نے بھی ایسا ہی کیا تھا – اور امن و امان کے حوالے سے ان کامیاب حکمرنوں کے عمدہ انتظام سے اگر سبق سیکھا جائے تو حاصل یہی راز ہوگا کہ جب تک ہر بڑے جرم کے وقوع کا ذمہ دار متعلقہ بڑے افسر کو نہیں ٹہرایا جاتا ، کچھ بھی نہیں بدلے گا کیونکہ ساری پولیس ہی ضلع کے سب سے بڑے افسر کے حکم پہ متحرک ہوتی ہے ۔۔ مگر جب یہی شہزادہ خواب غفلت کے مزے لینے کا عادی ہو اور اسے کسی سزا کا خوف بھی نہ ہو تو پھر جرائم کی روک تھام اورامن و امان کے نفاذ کا پہاڑ کیسے سر ہو اور کون کرے- اگر یہ سب کچھ نہیں کرنا تو پھر خواب دیکھنا چھوڑیئے اور ہر بڑے جرم پہ چار دن روکر چپ ہوجائیئے اور پھر نئے وقعہ کا انتظار کرتے رہیئے ۔۔۔(سید عارف مصطفیٰ)۔۔