تحریر: رانا شفیق پسروری۔۔
پہلے ادوار میں شعراء راجوں، مہاراجوں، سرداروں اور شاہوں کے سامنے کھڑے ہو کر مبالغہ آمیزی سے ان کے قصیدے پڑھتے اور انعام میں ”خیرات“ حاصل کیا کرتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ حکمران اور سرمایہ دار تو بدلتے رہتے اور شاعر ایک ہی رہتا اور یکے بعد دیگرے آنے والے حکمرانوں، سرمایہ داروں، دولت مندوں اور بااثروں کے لئے اِسی طرح کی ”چاپلوسیاں“ کہتا رہتا، جس طرح کی پہلوں کے لئے کہہ چکا ہوتا تھا، بعض اوقات قصیدے بھی وہی رہتے، صرف ممدوح کا نام بدل جاتا۔ قصیدہ گوئی کی یہ رسم ابھی تک جاری و ساری ہے فرق پڑا ہے تو صرف اتنا کہ پہلے ”قصیدہ نگاری“ صرف نظم میں ہوتی تھی، اور اب نثر میں بھی ہوتی ہے۔ پہلے نظم کی اس صنف کو ”قصیدہ“ کہا جاتا تھا، مگر اب یہ کام کرنے والے کچھ لوگ خود کو کالم نگار کہلوانا پسند کرتے ہیں، بلکہ اب معاملہ تحریر سے بھی آگے بڑھ کر الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اینکرز اور تجزیہ کار حضرات کی شکل میں دکھائی دینے لگا ہے۔”صاحبانِ اقتدار و اختیار“ کی مدح و ستائش میں اور اپنی پسند کے سیاست دانوں کی تعریف و توصیف میں مبالغہ آمیزی کی حدوں سے آگے بڑھ کر باقاعدہ (بعض اوقات ترلے سے کام لے کر بھی) کالم شائع کرائے جاتے ہیں اور یوں آج کل کے اخبارات میں ”قصیدہ نگاری“ کے شاہکار کالموں کی بہار دیکھنے کو ملتی ہے۔ معمولی معمولی لالچ کی خاطر اپنے ممدوح سیاست دانوں کو خوش کرنے کی خاطر یا ان کی وکالت میں جھوٹ بولے جاتے ہیں یا ان کے مخالفوں کے بڑھ چڑھ کر لتّے لئے جاتے ہیں (یوں ”اہلِ قلم“ کی اصطلاح میں تمام صحافی، تجزیہ کار اور اینکر بھی در آتے ہیں۔ اس لئے اس تحریر کے زمرے میں ٹی وی پر بیٹھے لوگوں کو بھی شامل کر لیا جائے)۔
بعض لوگ قلم کاری، ادب اور صحافت کو ایک پیغمبرانہ عمل قرار دیتے ہیں، مگر آج اس کو ہوا و ہوس کے شیرے سے بھگو دیا گیا ہے، اب اس پر دْنیا داری کے مچھروں اور مکھیوں کی بہتات حملہ آور ہو چکی ہے، حالانکہ قلم و ادب سے اصلاح امت اور تعمیرِ سیرت کا کام لیا جانا چاہئے تھا،مگر بْرا ہو بدنیتی، مفاد پرستی اور جاہ پسندی کا، اس کو محض شاہ پرستی کے ذریعے محض مفادات کے حصول تک محدود کر دیا گیا۔”قلم“ علم و آگاہی کا وسیلہ ہے، ربِ کائنات نے اس کی قسم کھا کر اس کی عظمت و اہمیت کو لازوال کر دیا ہے، لوح و قلم، مقامِ ”صریف الاقلام“ اور خود اپنی تقدیر کے نوشتہ کے لئے استعمال ہونے والے ”کلک تقدیر“ سے کون انکار کر سکتا ہے؟ لیکن افسوس ہمارے ہاں کے ”موجودہ“ قلم کاروں کو اس کی عظمت، اہمیت اور تقدس کا ادراک نہیں (یا جان بوجھ کر وہ اس کو پامال کر رہے ہیں) وہ کالم نگار اور ادیب کہلانے کے باوجود علم و ادب اور حقیقت پسندی کی بیخ کنی میں لگے ہیں۔روشن خیالی، ترقی پسندی اور حکمرانوں کی مدح کے نام پر اباحیت کو فروغ دے رہے ہیں، بعض قلم کار تو دانش اور ترقی کے نام پر معاشرے میں فحاشی اور برائی پھیلانے اور اخلاقی انارکی کو ہَوا دینے میں لگے ہیں۔ ان کے قلم کی ”ریزش کا انبار“ انسانوں (بالخصوص مسلمانوں) کے ایمان اور عقیدے کو خراب کرنے،اخلاقی قدروں کو تاراج کرنے، ہَوا و ہوس کو فروغ دینے اور معاشرے میں فحاشی اور اخلاقی گراوٹ کا ناسور پھیلانے میں لگا ہے، ایسے لوگ قلم کار نہیں،عزت و ناموس اور شراب و کباب کے سوداگر ہیں اور انسانیت کے حق میں مجرم ہیں ان کا جرم قتل، ڈکیتی اور غارت گری کرنے والوں سے کہیں زیادہ بھیانک اور سزا کا حق دار ہے۔
جہاں قلم کی حرمت کو پامال کرنے والے ہیں وہاں وہ بھی ہیں، جنہوں نے قدرت کی عطا کردہ صلاحیتوں کو ذہن سازی اور تعمیر سیرت میں صرف کیا۔ تہذیب و تمدن کے فروغ، اخلاقی قدروں کی بحالی اور اصلاح احوال کے لئے اپنے قلم کو سبک خرام کیا اور متاع قلم کو ”متاع ذوق عصیاں“ نہیں بننے دیا۔ حقیقت میں یہی لوگ قلم کار کہلانے کے حق دار ہیں،جو قوم کے مرض کی تشخیص بھی کرتے ہیں اور دوا بھی، جو اپنے مقتدر لوگوں کو غلط اقدام پر ٹوکتے اور بْرے ارادوں سے روکنے کی ہر ممکن سعی کرتے ہیں، جو اچھا کام کرنے پر تحسین اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ظلم و جبر کے سامنے کلمہ حق کی صدا بلند کر کے ”افضل جہاد“ کے مجاہد بنتے ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ قلم کاری اور ادب کسی بھی زبان کا ہو انسانیت کے لئے زینت اور خود ادیب کے لئے باعث عزت و شرافت ہوتا ہے۔اموی حکمران عبدالملک بن مروان کا قول ہے۔
”علیکم بالادب فان احتیجتم الیہ کان مالا،
وان استغنتم عنہ کان جمالا“
”ادب حاصل کرو،یہ ضرورت کے وقت تمہارے لئے مال اور بے یاری و بے پرواہی کے وقت باعث جمال ہے“۔
یعنی ادب وہ جو ادیب و قلم کار کے لئے عزت و وقار کا ضامن ہو اور جو ادب لوگوں میں تحقیر اور تمسخر کا باعث بنے وہ ادب نہیں صریحاً بے ادبی اور ذلت ہے۔ عربی کے ایک ادیب و لغوی ابن السکیت نے کہا تھا:
”الادب ما یعلق بالقلوب و تشھیہ الاذان“
”یعنی ادب وہ ہے جو ولوں میں جگہ بنا لینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور جسے سننے کے لئے کان بے تاب رہیں“
دوسرے لفظوں میں ”ادب“قلب و روح کی غذا اور ذہن و دماغ کی بالیدگی کا سامان ہے۔
ایک قلم کار(کالم نگار، صحافی، تجزیہ کار) اور ادیب کو دِل و دماغ کے خلاف محض پیٹ اور جیب کے لئے نہیں لکھنا چاہئے اور خواہ مخواہ قلم کو لفظوں کے پیچ و خم میں نہیں اْلجھائے رکھنا چاہئے،”ادب النفس خیر من ادب الدرس“ نفس کا ادب، درس کے ادب پر فوقیت رکھتا ہے“ یعنی تعلیم حاصل کی جاتی ہے، قلب ونظر کی پاکیزگی کے لئے اس کو لالچ کے اندھیروں میں ڈبو دینا بدترین عمل ہے، چہ جائیکہ نفس کی پاکیزگی (تزکیہ نفس) کا کونڈا کر لیا جائے۔ کسی عربی حکیم کا قول ہے ”ادب السر طھارالقلوب ء ادب العلانی حفظ الجوارح من الذنوب“ کہ ”خفیہ ادب دِل کی پاکیزگی،یعنی تزکیہ نفس کا نام ہے اور ظاہری ادب جسم کے اعضا کو گناہوں کی گندگی سے بچانے کا نام ہے“ اب اگر کوئی اپنے ہاتھ اور زبان وغیرہ سے مبالغہ آرائی اور کذب بیانی سے کام لے یا کسی کی خاطر الزام تراشی، بہتان طرازی اور پھکڑ پن سے لبریز گفتگو کرے تو وہ کس طرح ادیب کہلا سکتا ہے؟
عربوں کے ہاں ایک مقولہ بہت مشہور ہے:
”عقول الرجال فی اطراف اقلامھا“
یعنی ”نوک قلم ہی لوگوں کی عقلوں کا پتہ دیتی ہے“ ہم یہ کہہ سکتے ہیں، کہ کسی بھی قلم کار کی لکھی تحریر یا گفتگو اس کی سوچ، خصلت، فطرت اور سرشت کو واضح کر دیتی ہے، ہم کوئی بھی تحریر و کالم پڑھ کر اس کے لکھنے والے کی ذہنیت سے آگاہ ہو جاتے ہیں،پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں کالم نگار کس کا کتنا ”میراثی“ ہے اور فلاں کالم نگار اپنے کالموں کے ذریعے سے کس سے کیا چاہتا ہے۔(بشکریہ پاکستان)۔۔