media ki barbaadi ab bhugto

قلم فروش بلاول کو کھٹک رہا ہے۔۔

تحریر: ناصر جمال۔۔

ایک ’’قلم فروش‘‘ کو بلاول کھٹک رہاہے۔ کبھی اُس نے کسی پراپرٹی ٹائیکون کی ’’اباجی‘‘ سے ملاقات کروا کر، کرائےکی ایڈیٹری حاصل کی تھی۔ اُس کے بھائی کو ناصرہ زبیری کی جگہ ’’نیوز ون، ٹی۔وی‘‘ میں لانے والے بھی’’ابا جی‘‘ ہی تھے۔ آج انھیں وہ ناکام سیاستدان دکھائی دے رہے ہیں۔ بھٹوز اور بی۔بی کے بغض سے بھرے،یہ لوگ آج انھیں عظیم مان رہے ہیں۔ ویسے ان کے بارے میں زیادہ کیا لکھنا۔ یہ ایسے ہی ہیں۔ کل زرداری اقتدار میں آجائے گا تو، اس کے پھر سے جاکر پائوں پکڑ لیں گے۔

اعتزاز احسن کہنے لگے۔ ضیاء الحق کے دو ’’کھبے، سجے‘‘ الگ، الگ میرے پاس آئے۔ (یہی میر شکیل الرحمٰن کے بھی یہی ہیں) میں نے محراب والے کو کہا کہ ہمارے پاس کیا لینے آئے ہو۔ کہنے لگا کہ پہلے جو ’’کام‘‘ ضیاء الحق کیلئے کرتے تھے۔ اب آپ کیلئے کریں گے۔ ہمیں تو کام ہی، یہی آتاہے۔

دوسرے صاحب، اسلام آباد میں گاڑی کیلئے، نمبر 1 کی درخواست لے آئے۔ کہنے لگے کہ اس پر ’’نو‘‘ لکھ دیں۔ میں نے کہا کہ ’’کیوں‘‘۔ کہنے لگے کہ آپ نے اس پر ’’نو‘‘ ہی لکھنا ہے۔ میں ہنس پڑا۔ انھیں نمبر الاٹ کر دیا۔ بی۔ بی صاحبہ نے کسی پیر صاحب کو بھیجا کہ انھیں یہ نمبر الاٹ کردیں۔ میں نے اُن سے معذرت کرلی۔ بی۔ بی نے کہا کہ یہ نمبر کس کو الاٹ کیا ہے۔ میں ہنس پڑا اور انھیں درخواست کی کہ وہ یہ نا پوچھیں۔ کسی’’مہربان‘‘ کو الاٹ کر دیاہے۔

ان صاحب نے یہ خاص نمبر اپنے بیٹے کے موٹر سائیکل پر لگا دیا۔

ایک روز ابن رضوی کہنے لگے کہ بی۔ بی صاحبہ نے پوچھا کہ بیوروکریٹ سمیع خلجی، کیا میرے خلاف گواہی دے گا۔ میں نے کہا کہ بی۔ بی وہ ضرور دے گا۔ میں اُسے جانتا ہوں۔ بڑا کمینہ آدمی ہے۔ بی۔ بی نے کہا کہ آپ اُسے کیسے جانتے ہیں میں نے سرجھکا کر کہا کہ وہ میرے بہنوئی ہیں۔ اگلے روز وہی ہوا۔ سمیع خلجی جیسے ہی گواہی دینے کیلئے اٹھا۔ جیالوں نے ہائیکورٹ میں اس کے منہ پر سیاہی پھینک دی۔ ہنگامہ ہوگیا۔ آج بھی ابنِ رضوی، ناہید خان، صفدر عباسی، راجہ پرویز اشرف سمیت کتنے ہی جیالے وہ کیس بھگت رہے ہیں۔ ابن رضوی نے کہا کہ جب 2008ء میں ہماری حکومت آئی تو ہم حکومت سے باہر تھے۔اور ہماری حکومت میں سب سے پہلے، سمیع خلجی کے سیکرٹری ریلوے کے آرڈر زہوئے۔

اپوزیشن اور حکومت کے دوست، الگ ہی ہوتے ہیں۔ فنکار بڑی تیزی سے اپنا راستہ بناتے ہیں۔ شاٹ لگاتے ہیں اور نکل جاتے ہیں۔ لیڈر اور کارکن آپس میں لڑتے رہ جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ پیپلز پارٹی کی حکومت آئے تو، ضرور ہوتا ہے۔

مجھے یاد ہے۔ جب حکومت بن رہی تھی۔ آصف زرداری اور میاں نواز شریف کی بلاول ہائوس ایف۔ایٹ مشترکہ پریس کانفرنس تھی۔

میں نے ان سے پوچھا کہ ’’بی۔ بی صاحبہ شہید ہوگئیں۔ آپ، مجھے، ہم سب کو، اللہ کے حضور ایک دن حاضر ہونا ہے۔ آپ بتائیں کہ آپ حسینؓ کا ساتھ دیں گے یا وقت کے یزید کے ہاتھ مضبوط کریں گے۔

آصف زرداری سٹپٹا گئے۔ کہنے لگے کہ نوجوان مجھے شہید ہونا ہے۔ بی۔ بی۔ کو سرخرو  مُنہ دکھانا ہے۔

یہ الگ بات کہ پھر اگلی پریس کانفرنسز میں مجھے سوال کا موقع نہیں دیا گیا۔ پیغام دیا کہ مشکل سوال نہ پوچھا کرو۔ کام بتائو، زندگی آسان کرو۔

قارئین!!!

عجیب بات ہے کہ عام آدمی کی طرح، ہر دور میں ہماری زندگی مشکل ہی ہوتی چلی گئی۔ ہم بھی ’’ڈھیٹ‘‘ تھے۔ ڈٹے رہے۔ بے روزگاری کاٹی۔ بچے سکول سے، سال، سال کیلئے باہر ہوئے۔ نام نہاد ’’انا‘‘ پر ڈٹے رہے۔ تبدیلی کے سوا تین سال گزر گئے۔ اب بھی دل ہی نہیں مانا۔ ورنہ عزیزی فواد چوہدری کا دفتر اور وہ ہیں ہی کتنی دُور، یہ بھی اچھا ہوا کہ انھیں بھی کوئی توفیق نہ ہوئی۔ ورنہ ویسے ہی احسان چڑھ جاتا۔ باقی رہ گیا، چوہدری شہباز کا کھانا اور دعوت شیراز، وہ ہمارا حق ہے۔ جیسے اچھا شعر سننا اُن کا حق ہے۔

آج اپنے صحافتی کیریئر اور ’’ایام جاہلیت‘‘ (یعنی اسٹوڈنٹ لائف) کو دیکھتا ہوں تو ہنستا ہوں۔

کچھ بھی نہیں بدلا، کچھ چہرے بدلے ہیں۔ وہی طرز حکمرانی ہے۔ اشرافیہ کے ڈاکے، چوریاں، سینہ زوریاں، پہلے سے زیادہ عروج پر ہیں۔ پہلے بس ایک پردہ تھا۔ وہ بھی چاک ہوگیا۔ اب عہدے، سیٹیں، بکتی ہیں۔ ’’چور اور چوکیدار‘‘ کا’’ جوائنٹ وینچر‘‘ کمال کا ہے۔ ہمارے ’’خاکی دوست‘‘ وہ ایمانداری کا اسکرپٹ سناتے ہیں۔ جو اُن سے پہلے بھی سنتے تھے۔ تو دل لوٹ پوٹ جانے کو چاہتا تھا۔ پہلے والوں کا شروع میں یقین کیا۔ پھر سب آشکار ہوگیا۔ وہی لفظ اور عمل ہیں۔ دورنگی، تضاد اور دُھوکہ ہے۔

قارئین!!!

آئیڈل ازم اچھی چیز ہے۔ مگر حقائق، تلخ ہوتے ہیں۔ 1985ء سے لیکر 2021ء ہو چلا ہے۔ کیا بدلا ہے۔ ڈالر آٹھ روپے سے 180روپے پر آگیا ہے۔ پھر آپ کہتے ہیں۔ ان میں ہم فرق کریں۔ سب کی پرفارمنس ایک ہے۔ طریقہ واردات، مختلف ہے۔

تبدیلی آپ نے چُوپ کر دیکھ لی ہے۔ ایمانداروں کو آپ بھگت چکے ہیں۔ آپ کو بطور قوم مان لینا چاہئے کہ آپ جیسے ہیں۔ آپ کے اوپر حکمران ویسے ہی مسلط ہیں۔ جن کے پاس’’اسٹک‘‘ ہے۔ جن کے پاس ’’سیاہ قلم‘‘ ہے۔ وہ ہمارے سماج کے برہمن ہیں۔ جو ڈھیلا ڈھالا نظام چلاتے ہیں۔ وہ 95فیصد قابل محاسبہ نہیں ہیں۔ جو ووٹ لیکر آتے ہیں۔ ان کا اختلاف، ان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اس لئے ان کا محاسبہ تو نہیں ہوتا البتہ، انھیں اکثر ’’خرخرہ‘‘ لگتا رہتا ہے۔ سیٹھوں کے سامنے نظام ویسے ہی ڈھیر ہوجاتا ہے۔ اس لئے عوام پر چوہوں کی مانند ،ہر تجربہ کیا جاتاہے۔ دوسروں کو اس سے عبرت پکڑنے کا کہا جاتا ہے۔

آج اقتدار اور ریاست کے ’’حمام‘‘ میں سب ایک دوسرے کے سامنے ’’پیدائشی‘‘ حالت میں کھڑے ہیں۔ہمارے کچھ جغادری، ان میں سے، نیک و کاری، درد دِلی، حب الوطنی کے رنگ لگا کر یا کسی پر مختلف رنگوں کے الزام پینٹ کرکے انھیں کم تر ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔میرے نزدیک ان میں سب سے بہتر سیاستدان، آصف زرداری ہے۔ کیونکہ اُس نے تو، بقول نانگا مست کے کبھی پارسائی کا دعویٰ کیا ہی نہیں۔ اس نے الزامات کا پلٹ کر جواب ہی نہیں دیا۔ میڈیا کو جتنی ’’لبرٹی‘‘ اس نے دی۔ شاید ہی کسی اور نے دی ہو۔ باقی دو ایمانداروں نے تو، جنرل مشرف جیسی برداشت بھی نہیں دکھائی۔

آصف زرداری کا ’’سیاسی پوٹنشل‘‘ سب سے زیادہ ہے۔ اُس نے بیک وقت اتحادی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کو سنبھالا۔ عمران خان جیسی’’سپورٹ، پرمیشن اور لبرٹی‘‘ اسے میسر ہوتی، تو وہ سیاسی طور پر پتا نہیں کیا کردیتا۔ ہمیں 16ویں اور 18ویں ترمیم پر بہت سے اعتراضات ہیں۔ مگر آصف زرداری نے سادہ اکثریت نہ ہونے کے باوجود یہ ترامیم کروادیں۔اور میاں نواز شریف نے تیسری بار وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کیلئے ان ترامیم پر ڈیل کی۔اب وفاق میں آنے والے تمام سیاستدان اس پر شرمندہ، شرمندہ دکھائی دیتے ہیں۔آصف زرداری نے ضرورت پڑنے پر سیاسی اختلاف رائے کو ذات کا حصہ نہیں بنایا۔حتیٰ کہ نواز شریف کے پیچھے کھڑے ہوکر نظام بچایا۔ وگرنہ دھرنا نظام کو کھا جاتا۔جیسے  نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں جب محترمہ کو اسٹیبلشمنٹ نے پورے ملک سے صرف سترہ سیٹیں دیں تو ، ان کی پارٹی نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ نہیں جاتے ۔ جس پر محترمہ نے کہا کہ اگر ہم پارلیمنٹ نہ گئے تو ، نظام گر جائے گا۔ اور جب نواز شریف محترمہ بے نظیر بھٹو کو گرفتار کرنا چاہتے تھے تو ، وہ ملک سے باہر چلی گئیں ۔ اور انھوں نے کہا کہ آج نوازشریف نے نظام کے تابوت میں، آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ اور پھر آگے سب تاریخ ہے۔

آصف زرداری سے بہت سی غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔ اُس نے ’’جیالوں‘‘ کو نشانِ عبرت بنا دیا۔ پیپلز پارٹی کو وفاق سے صوبائی پارٹی بنا دیا۔ پارٹی میں اختلاف رائے کو کُچلا، اور سسٹم میں موجود ’’چیک‘‘ آلودہ کردیئے۔ سسٹم میں اِن بلٹ’’انجوائے منٹ‘‘ کا پیمانہ توڑکر غیر محدود پیمانہ اپنایا تو پھر وہ حکومت سے باہر ہوگئے۔انھوں نے ہر چیز کو ترازو میں تولنے کے نتائج بھی بھگتے ہیں۔حالانکہ اُن کی اور اُن کے وزیراعظم کی اتنی سیاسی کامیابیاں تھیں کہ ’’دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں‘‘ لیکن صرف ’’ایک خامی نے‘‘اُن کی سب کامیابیوں کو گھنا کر رکھ دیا۔

ایک بات طے ہے کہ بلا تفریق ’’تمام سیاستدان‘‘ چائے، چینی، دھی، بھلے والوں میں خود کفیل ہے۔ ملکی وسائل لوٹنے یا ضائع ہونے کی شرح بھی ذرا بھی تفاوت نہیں۔ سب ایک جیسے ہیں جو پانچ سال کیلئے آتے ہیں اور نو یا دس سال کے لئے آتے ہیں کسی میں کوئی فرق نہیں ہے۔جب کچھ بھی نہیں بدلنا تو، پھر آصف زرداری پر اعتراض کیوں، لندن والے زیادہ ایماندار ہیں،یا ریاست مدینہ والے۔ ان کے ہوتے ہوئے تو، رشوت کے ریٹ چار سے چار ہزار ہوگئے۔ پھر باقی کیا بچتا ہے۔میرا تو مشورہ ہے ان تینوں جماعتوں کی آئین میں ترمیم کرکے باریاں مقرر کردی جائیں۔ تاکہ سب کواپنی باری کا پتا ہو۔ وہ ملک کو چلنے دیں۔ رہ گئی اسٹیبلشمنٹ تو ،اسے پیچھے رہ کر سب کچھ کرنے کا جو ’’چسکا اور مزہ‘‘ لگا ہے۔ وہ وہی جانتے اور مانتے ہیں۔ پھر کیا مسئلہ ہے۔ مفاہمت کے بادشاہ کی باری تو بنتی ہے۔

بہتر ہے،آپ، آصف بھائی پر مان جائیں۔ وگرنہ متبادل کے طور پر، مولانا فضل الرحمٰن، طاہر القادری، تحریک لبیک اور اُن جیسے ہیں۔میں نے 2008ء میں ایک بار، آصف زرداری کو مولانا فضل الرحمٰن کی موجودگی میں کہا کہ اگر آپ کو وزیراعظم کا امیدوار نہیں مل رہا تو آپ ’’مولانا‘‘ کو وزیراعظم کیوں نہیں بنا دیتے۔ دونوں اتحادی رہنمائوں کے حلق سے فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا۔ آصف زرداری نے کئی بار میرا کاندھا تھپتھپا کر کہا کہ ’’نوجوان تم نے مجھے اتنا سادہ سمجھ رکھا ہے۔ میں مولانا کو، وزاعظم بنا تو دوں۔ ان سے وزارت عظمیٰ واپس کون لے گا۔

قارئین!!!

بہتر یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ، اور آپ اچھے سے سمجھ لیں۔ جو پاس ہے۔ اُسی پر اکتفا کریں۔ آپ نے جھونپڑی کی بجائے محل کے چکر میں ’’تبدیلی‘‘ انجوائے کرکے دیکھ لی۔ مزہ تو آہی رہا ہوگا۔ باقی رہ گیا میڈیا، تو، ہن آرام اے۔ یا اور تبدیلی چاہئے۔(ناصر جمال)

sentaalis ka pakistan | Javed Chaudhary
sentaalis ka pakistan | Javed Chaudhary
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں