بلاگ: احسان کوہاٹی
میڈیا سے وابستہ احباب جانتے ہیں کہ غیر معمولی خبر اور اشتہار ایڈیٹر اور مالکان کے علم میں لائے بنا چھپتے ہیں نہ نشر ہوتے ہیں، رپورٹر کے پاس خبر ہو تو وہ چیل کی طرح پھڑپھڑاتا پھرتا ہے بار بار نیوز ایڈیٹر اور ایڈیٹر کے پاس پہنچ جاتا ہے کہ اسے فرنٹ پیج پر نمایاں جگہ ملے چینل کا ہو تو بیورو چیف اور ڈائریکٹر نیوز سے رابطے میں آجاتا ہے اسکی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اسکی خبر بریکنگ نیوز کا درجہ پالے اسی طرح جب اخبار کا لے آوٹ بنایا جانے لگتا ہے تو سب سے پہلے اشتہارات ڈسکس ہوتے ہیں کہ صفحہ اول پر کتنے اشتہارات ہیں کہاں کہاں لگنے ہیں دائیں جانب شایع کیا جانا ہے یا بائیں جانب۔۔ ممکن نہیں کہ ایڈیٹر کے علم میں لائے بنا اشتہار لگ جائے اس حوالے سے انتظامیہ بڑی حساس ہوتی ہے، جماعت الدعوہ کالعدم جماعت ہرگز نہیں مگر پھر بھی میڈیا اسکے اشتہارات لینے سے انکاری رہتا ہے مقصد یہ کہ یہ ناممکن کی حد تک ممکن ہے کہ قادیانیوں کی جانب سے اشتہار دیا جائے اور وہ پان چھالیہ کے اشتہارات کی طرح چھپ جائے
رمیزہ صاحبہ! یہ کس طرح ممکن ہے کہ قادیانیوں کا کوارٹر پیج کا کلر اشتہار آپکے اخبار میں دھوکہ دہی سے چھپ جائے؟ اور آپکو آپکے ایڈیٹر کچھ خبرنہ ہو……آپ میدان جنگ میں دشمن کی پوزیشن جاننے کے لئے پھینکے جانے والے روشنی کے گولوں کی طرح استعمال ہوئی ہیں، اس اشتہار سے جاننے والے سوسائٹی کا ردعمل جاننا چاہتے تھے… کچے زہنوں میں سوالات اچھالنا چاہتے تھے….اور “چناب نگر” والوں کو حوصلہ دینا چاہتے تھے…..آپکا نوائے وقت ایک ساتھ کئی شکاروں کے لئے چارہ بنا ہے….. آپکی معافی تب قابل قبول ہوتی جب نظامی مرحوم کے بعد لامذہب متعصب زہنوں کو ایڈیٹوریل پر نہ لیا جاتا دائیں جانب سے بائیں جانب کا یو ٹرن نہ لیا جاتا…. ویسے یہ اچھا ہی ہوا اس اشتہار نے خارش زدہ کٹ کھنی بلی تھیلے سے باہر نکال دی علم ہو گیا کہ مجید نظامی کے بعد انکا وہ نوائے وقت بھی مر چکا ہے۔۔(احسان کوہاٹی)