رپورٹ : اسلم شاہ۔۔
اربوں روپے مالیت کی زمینوں کا گھناونا کھیل ایک بار پھرشروع ہوگیا،سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست بلڈر مبین جمانی کی ایما پر کراچی سسٹم کے کارندے کی نگرانی میں گلزار ہجری اسکیم 33 میں غازی گوٹھ پر قابضین سے 6 سے 7 ارب روپے مالیت کی زمین واگزار کرانے کے خصوصی آپریشن میں جلاؤ گھراؤ، ہنگامہ آرائی کے دوران 2 پولیس اہلکار، 2 خواتین سمیت 5 افراد زخمی ہوگئے۔ڈپٹی کمشنر شرقی راجہ طارق چانڈیو کو اس خصوصی آپریشن سے لاعلم رکھا گیا تھا، جس کی رپورٹ پر چیف سیکریٹری سندھ سہیل راجپوت کے دستخط سے جاری ہونے والے خط نمبر SOV/(SGA&CD)3-19/2017 بتاریخ 30جولائی 2022ء کو جاری کرتے ہوئے آپریشن کرنے والے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر شرقی نشاط
مظہر،اسٹنٹ کمشنر اسکیم 33 ندیم قادر کھوکھر،مختیار کار اسکیم 33 جلیل بروہی،تپیدار عاشق تنیو، انچارچ انٹی انکروچمنٹ فورس سندھ سید محمد احمد کو ملازمت سے معطل کردیا گیا،جبکہ سابق مختیار کار اعجاز میؤ بھی شریک ہونے کے باوجود معطلی سے بچ گئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر شرقی راجہ طارق چانڈیو کی رپورٹ پر 5 افسران کو فوری طور پر معطل کرکے کمشنر کراچی کو تحقیقات کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے،جو 3 دن میں ذمہ دار افسران کا تعین کرکے رپورٹ چیف سیکریٹری سندھ سہیل راجپوت کو جمع کرائیں گے۔گلزار ہجری اسکیم 33 کے سیکٹر 25-A اور A-26 میں واقع پوسٹ آفس ورکرز کو آپریٹیو ہاوسنگ سوسائٹی کی 80 ایکٹر الاٹ شدہ زمین پر پہلے جعلی عبداللہ غازی گوٹھ بنایا گیا پھر اس کے نام پر غیر قانونی طور پر زمین پر قبضہ کیا گیا۔55 ایکٹر اراضی پر سابق صدر آصف علی زردای کے قریبی دوست مبین جمانی (جنہوں نے کراچی میں بلاول ہاؤس تعمیر کر کے زرداری کو تحفے میں کی وجہ سے مشہور ہیں) نے 2013ء میں قبضہ کرکے چاردیواری تعمیر کر رکھی ہے۔جس کی وجہ سے سوسائٹی کے 24 سو جائز الاٹیز اپنے لیز زمین سے محروم ہیں۔مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی سسٹم کے نگران تیمور ڈومکی کے ساتھ محمد علی شیخ، خالد یوسفی، رمضان، اسلم گوڑا، ڈائریکٹر جنرل کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی(کے ڈی اے) محمدعلی شاہ،صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کی سفارش پر قابضین سے چار ایکٹر کمرشل اراضی خالی کرانے کا خصوصی آپریشن کیا گیا تھا۔ اس موقع پر زمین کے جعلی کاغذات بلڈر ز کو فروخت کا پلان ہے۔کراچی سسٹم کو زمین کی فروخت سے ایک ارب روپے 31 جولائی تک کراچی سسٹم میں دینے کی تصدیق کی گئی ہے۔بلڈر مبین جمانی کے کارندے آپریشن کے دوران نگرانی کے لیئے موجود تھے۔سابق وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ کے دور میں بھی جعلی غازی گوٹھ کے خلاف کاروائی میں ہنگامے پھوٹ گئے تھے۔جلاؤ گھیراؤ اور فائرنگ کے واقعات پر قابضین کے خلاف آپریشن روک دیا گیا تھا۔پوسٹ آفس ملازمین کی سوسائٹی کی آلاٹ شدہ زمین پر بننے والے جعلی غازی گوٹھ پر لسانی بنیاد پر جھگڑا و فساد ہونے کی وجہ سے اربوں روپے مالیت کی زمین انتظامیہ واگزار کرانے میں ناکام ہوگئی تھی۔قبضہ گروپ میں بعض صحافی نما بھی پیش پیش تھے۔ان میں مشتاق سرکی، مرتضی کیریو اور دیگر صحافی نما بھی قابضین کی حمایت کرتے ہوئے نظر آئے۔تحریک انصاف سندھ کے رہنما و سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ کی جانب سے قابضین کی حمایت پر متعلقہ حلقوں اور سوسائٹی کے جائز الاٹیز بھی حیرت زدہ ہیں۔کراچی سسٹم کے نگران تیمور ڈومکی و صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ کی ہدایت پر خالد یوسفی کے ساتھ ڈائریکٹر جنرل KDA محمد علی شاہ سرگرم عمل ہوئے اور ڈپٹی کمشنر راجہ طارق چانڈیو (کراچی سسٹم کا حصہ نہیں) کو بتائے بغیر بلاک E میں کمرشل اراضی کو خالی کرانے کا خصوصی آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا۔چار ایکٹر اراضی کی مالیت 6 سے 7 ارب روپے بتائی جاتی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کے قریبی دوست مبین جمانی نے زمین کے بدلے میں ایک ارب روپے فوری طور پر دینے کی پیشکش کر رکھی تھی اور اس کی مدت 31 جولائی تھی،جس کے باعث اجلت میں کمرشل اراضی پر خصوصی آپریشن کیا گیا۔کراچی سسٹم کے تحت اسکیم 33 میں ناجائز قابضین نے پنجے گاڑھ لیئے ہیں،جس کی وجہ سے اسکیم 33 لینڈ گریبر کی جنت بن گئی ہے۔علاوہ ازیں سابق ڈپٹی کمشنر ملیر قاضی جان محمد کو غازی گوٹھ کی زمین کی بعض لیز جاری کرنے پر قومی احتساب بیورو کراچی نے گرفتار کیا تھا۔ان پر متعدد زمینوں کے الاٹمنٹ کرنے پر نیب کراچی سمیت دیگر تحقیقاتی ادارے میں بھی تحقیقات زیر سماعت ہیں۔پوسٹ آفس ورکز ز سوسائٹی کی زمین پر پیپلز پارٹی کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ کے وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شیپنگ فیصل سبزواری اور دیگر رہنماؤں نے انار گارڈن کی زمین پر جعل سازی کے ذریعہ اس گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں۔علاوہ ازیں پوسٹ افس سوسائٹی کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ہمیں ہمارے قانونی لیز شدہ پلاٹس و اثاثوں سے محروم سیاسی جماعتوں، بیورو کریٹس اور سرکار ی افسران کی ملی بھگث سے کیا گیا ہے جس کی جنگ ہم عدالت میں لڑ رہے ہے عدالت سے توقع ہے کہ وہ ہمارے ساتھ انصاف کریں گے۔عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ پہلے ہی فیصلہ دی چکی کہ کراچی میں اب کوئی گوٹھ نہیں بنے گا اور نہ اس کو رجسٹرڈ کیا جائے گا پھر یہ غازی گوٹھ کہاں سے آگیا۔(اسلم شاہ)
(ا س رپورٹ کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔رپورٹ میں جن لوگوں کا ذکر کیاگیا ہےوہ اپنا موقف دینا چاہیں تو ضرور شائع کرینگے۔۔علی عمران جونیئر)۔۔