تحریر: رحمت اللہ شیخ
دنیا والوں کے نزدیک پسندیدگی اور کامیابی کا معیار مال و دولت، شہرت، قابلیت اور منصب وغیرہ ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدگی اور کامیابی کا معیار کچھ الگ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو قابل وہ ہے جو اس کے ہاں مقبول ٹھہر کر دکھائے۔ دنیا کی نظر میں تو بھلے وہ ناقابل اور نکماسمجھا جاتا ہو لیکن اللہ کی نظر میں اگر وہ اپنی تقویٰ اور پرہیزگاری کی وجہ سے مقبول ٹھہر جائے تو وہ ہی حقیقی کامیاب ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں علم و فن میں مہارت یا مال و دولت وغیرہ تب ہی قبولیت کا درجہ پاسکتے ہیں جب کہ وہ دین کے لیے خرچ کیے جائیں۔ ہماری قابلیت اگر دین کی خدمت کے لیے خرچ ہورہی ہے تو یہ ہماری خوش قسمتی ہے بصورتِ دیگر خداوند کی نظر میں ہماری قابلیت کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس کے متعلق چند مثالیں ملاحظہ کریں۔
شیطان جسے طاؤس الملائکۃ کہا جاتا تھا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول نہ بن سکا اور ہمیشہ کے لیے مردود بن گیا۔ ابوجہل کو اس کی دانائی اور عقلمندی کی بنیاد پر ابوالحکم کہا جاتا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبولیت نہ پانے کی وجہ سے ابوجہل ٹھہرا۔ فرعون جو خود کو سب سے بڑا رب سمجھتا تھا،لاکھوں لوگ جس کے حکم کے تابع تھے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول نہ ہونے کی وجہ سے ذلیل و خوار ہوا۔ قارون ،جس کے مال و دولت کا کوئی مدِمقابل نہیں تھا۔ یہاں تک کہ اس کے خزانوں کی کنجیاں اونٹ اٹھا کر لاتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہ ٹھہرنے کی وجہ سے اپنے مال سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ تاریخ کے اوراق ایسے لوگوں کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں جو دنیاوی لحاظ سے تو قابلِ عزت سمجھے جاتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہ ہونے کی وجہ سے ذلیل و خوار ہوئے۔اس کے بالمقابل صرف ایک حضرت بلال رضہ کی مثال دیکھ لیجیے۔ جس کے پاس نہ مال ہے نہ دولت، بظاہر شکل و صورت کے حساب سے بھی خوبصورت نہیں، غلام کا بیٹا ہے، زندگی کا ایک طویل حصہ غلامی میں گزارا ہے، لیکن اللہ کے نزدیک ایسی مقبولیت پاجاتا ہے کہ قدم زمین پر رکھتا ہے اور آہٹ جنت میں سنائی دیتی ہے۔حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ “اللہ پاک آپ کی صورت اور مال پر نظر نہیں کرتے بلکہ آپ کے دین اور اعمال پر نظر کرتے ہیں۔” اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضلیت اور فضیلت کا معیار مال و دولت، جاہ و حشمت نہیں بلکہ صرف اور صرف تقویٰ ہے۔
آج دین کی تبلیغ میں علماء اور طلباء کی ایک کثیر تعداد مصروفِ عمل ہے۔ اشاعتِ دین کا جذبہ رکھنے والے افراد خصوصًا طلباء کے لیے یہ بات سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ اسلام میں کسی بھی صورت میں حدودِ شرعیہ سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں۔ جیسا کہ مولانا ابوالحسن ندوی رحہ نے لکھا ہے کہ عقائد اور حدودِ شرعیہ کے معاملے میں جماعتِ علماء کو بلکل قطب نما کی طرح ہونا چاہیے۔ (علماء کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں، ص46۔۔) یعنی جس طرح قطب نما اطراف بدلنے کےباوجود بھی اپنی سمت تبدیل نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ اس کا رخ قبلہ کی طرف ہی ہوتا ہے، بلکل اسی طرح جماعتِ علماء کو بھی ہرحال میں دین کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھنا چاہیے اور شرعی حدود سے تجاوز کرنے سے پرہیز کرنی چاہیے۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم دین کی چند باتیں سیکھنے کے بعد خود کو علم کا بحرِ بے کنار سمجھنے لگتے ہیں اور اسی نشے میں شرعی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں گھبراتے۔ ماڈرن بننے کے چکر میں اتنا ماڈرن بن جاتے ہیں کہ داڑھی آہستہ آہستہ کم ہونا شروع جاتی ہے، نمازوں کی پابندی نہیں رہتی، شلوار ٹخنوں سے نیچے آجاتی ہے، سر پر عمامہ تو دور ٹوپی بھی نہیں رہتی، موسیقی و دیگر لغو چیزیں جائز ہوجاتی ہیں، تصویر کا بلاضرورت استعمال ہونے لگتا ہے۔ کیا ایسے کرتوتوں سے ہم پوری دنیا میں اسلام پھیلائیں گے؟ ہم اپنے چھ فٹ کے وجود پر اسلام نافذکرنے سے قاصر ہیں تو پوری دنیا میں اسلام کیسے نافذ کرسکتے ہیں۔۔؟؟
آج لوگوں کی دلوں تک بات نہ پہنچنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہم خود اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کررہے، اچھی باتیں صرف ہماری زبانوں تک محدود رہ گئی ہیں۔ جب ہمارا اپنا وجود اسلامی تعلیمات کی عکاسی کرتا نظر آئے گا تو خودبخود اسلام کی تبلیغ ہوگی اور ہماری بات لوگوں کی دلوں تک جاپہنچے گی۔(رحمت اللہ شیخ)۔۔