pathar se keeray ka rizq

قابل اعتراض اشتہار

تحریر: یاسرپیرزادہ۔۔

آج ایک عجیب معمہ درپیش ہے۔ایک موضوع پر کالم لکھنا چاہتا ہوں لیکن سمجھ نہیں آرہا کہ کیسے آغاز کروں؟ موضوع قطعاً اچھوتا نہیں بلکہ سچ پوچھیں تو خاصا گھسا پٹا ہے تاہم لکھتے ہوئے جو ’اصطلاحات‘ استعمال کرنی پڑیں گی انہیں سوچ کر الجھن میں ہوں۔ اگر وہ اصطلاحات استعمال کرتا ہوں تو خدشہ ہے کہ کہیں مدیر صاحب اُنہیں فحش قرار دے کر قینچی نہ چلا دیں اور اگر اُن اصطلاحات کا کوئی شریفانہ متبادل استعمال کرتا ہوں تو کالم مضحکہ خیز ہونے کا احتمال ہے۔ خیر کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ٹی وی پر ایک اشتہار نظر سے گزرا، یہ اشتہار اُس’مانع حمل شے‘ کا تھا جسے کیمسٹ سے طلب کرتے وقت اچھے خاصے پہلوان کا چہرہ بھی عفت مآب بی بی کی طرح شرم سے سرخ ہو جاتا ہے۔اشتہار کچھ یوں تھا۔ دروازے پر دستک ہوتی ہے، خاتون خانہ، جو کہ مشہور ماڈل متھیرا ہے، دروازہ کھولتی ہے، سامنے مستری کھڑا ہے، وہ اسے اندر بلاتی ہے، مستری کوئی چیز مرمت کرکے چلا جاتا ہے۔اگلے روز پھر دستک ہوتی ہے، اب بھی وہی مستری ہے مگر اُس کے چہرے پر کچھ شرمندگی ہے، وہ خاتون سے کہتا ہے کہ اِس مرتبہ گارنٹی ہے کہ ’بالکل نہیں ٹوٹے گا‘۔ یہی عمل لگاتار تین چار دن جاری رہتا ہے، مستری روزانہ آ کر خجالت آمیز انداز میں کوئی چیز مرمت کرکے چلا جاتا ہے،آخر میں دکھاتے ہیں کہ مستری خاتون خانہ کا ٹوٹا ہوا پلنگ جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے اور خاتون نائٹ سوٹ میں معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے کمرے سے نکل رہی ہے۔ ساتھ ہی اشتہار کی ٹیگ لائن چلتی ہے جسے یہاں بیان کرنا مناسب نہیں، عقل مند کے لئے اشارہ اور متھیرا،دونوں کافی ہیں۔

پہلی مرتبہ جب یہ اشتہار دیکھا تو مجھے یقین نہیں آیا۔ تشکیک پسند فلسفیوں نے چونکہ میری مت ماری ہوئی ہے اِس لئے یقین کرنے کے لئے بار بار اشتہار دیکھنا پڑا اور ہر مرتبہ میں ایک ہی نتیجے پر پہنچا کہ یہ اشتہار کسی پاکستانی ٹی وی چینل پر نشر کرنے کے لئے مناسب نہیں۔ یہاں سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر یہ اشتہار مناسب نہیں تو پھر اُس ’’شے‘‘ کے لئے کس قسم کا اشتہار بنایا جائے جو ٹی وی پر بھی نشر ہو سکے اور نا مناسب بھی نہ ہو؟ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کے خیال میں اِس قسم کی چیزوں کا اشتہار سرے سے چلایا ہی نہیں جانا چاہئے کہ ہر بالغ شخص کو اِن چیزوں کا پتا ہے کہ کہاں سے ملتی ہیں اور کس کام آتی ہیں، سو کیا ضرورت ہے بلا وجہ ایسے اشتہارات بنانے کی جو بندہ اپنے گھر والوں کے ساتھ دیکھتے ہوئے شرمندہ ہو جائے۔ میری رائے میں مانع حمل اشیا کے اشتہارات چلائے جا سکتے ہیں مگر معقولیت اور شائستگی کے ساتھ تاہم مذکورہ اشتہار میں یہ دونوں باتیں نہیں تھیں۔

اِس اشتہار میں جو مقصد دکھایا گیا ہے اُس کا اِن دونوں باتوں سے نہ صرف یہ کہ کوئی تعلق نہیں بلکہ جس ذو معنی انداز میں یہ فلمایا گیا ہے وہ بھی مناسب نہیں۔ماضی میں اِن چیزوں کے اشتہارات نشر ہوتے رہے ہیں مگر کسی نے اعتراض نہیں کیا کیونکہ اُن کا مقصد لوگوں میں اِس بات کا شعور اجاگر کرنا تھا کہ بچوں کی پیدائش میں وقفہ ضروری ہوتا ہے، یہ بے ضرر اور معلوماتی نوعیت کے اشتہارات تھے جو ذو معنی تھے اور نہ ہی اِن میں بد ذوقی کا کوئی عنصر تھا۔جس اشتہار کی تفصیل بیان کرکے میں نے گناہ کمایا ہے،میری رائے میں اُس پر پابندی لگنی چاہئے کہ یہ اشتہار ہمارے ٹی وی چینلز پر نشر کیے جانے کے قابل نہیں۔

یہاں کچھ ذکر اُن دوستوں کا بھی ہو جائے جو گاہے گاہے ملک میں بڑھتی ہوئی فحاشی اور عریانی کے بارے میں لکھتے رہتے ہیں، ہمارے یہ دوست مذہبی رجحان رکھتے ہیں اور انہیں اِس بات کا ملال ہے کہ باقی لکھاری کیوں اِس مسئلے پر آواز نہیں اٹھاتے؟ دراصل جو گلہ ہمارے اِن دوستوں کو لبرل کالم نگاروں سے ہے وہی شکایت آزاد خیال لکھاریوں کو اپنے اِن پیٹی بند بھائیوں سے ہے۔مجھے نہیں یاد پڑتا کہ مذہبی رجحان رکھنے والے کسی لکھاری نے کبھی مندر ڈھائے جانے کے خلاف، ہندو بچیوں کی جبری تبدیلی مذہب کے خلاف، اسلام کے نام پر جلاؤ گھیراؤ کرنے والی تنظیموں کے خلاف یا مسیحیوں کی عبادت کے لئے مختص جگہ پر قبضے کے خلاف لکھا ہو۔ اسی طرح ہمارے اِن دوستوں میں سے کسی نے اُس اخبار کے خلاف بھی آوازنہیں اٹھائی جس نے کچھ عرصہ پہلے صفحہ اول پر شہ سرخی میں عورت مارچ میں شرکت کرنے والی خواتین کے خلاف گندی گالی لکھی تھی۔اور نہ ہی اِن عزیز دوستوں کے قلم نے اُس وقت شعلے اگلے جب ایک مذہبی تنظیم نے پورے شہرکو یرغمال بنا کرمفلوج کر دیا تھا اور پولیس کے جوان شہید کر دیے تھے، ذرا سوچئے کہ یہ کام عورچ مارچ والوں نے کیاہوتا تو ہمارے دوستوں نے اُن کا کیا حال کرنا تھا!ادھر لبرل کالم نگار بھی مذہبی شخصیات کی تعریف کے معاملے میں قدرے کنجوس واقع ہوئے ہیں، پاکستان میں بڑی فلاحی تنظیمیں مذہبی رجحانات رکھنے والے نیک اور صالح لوگ چلا رہے ہیں مگر ہمارے لبرل دوستوں نے شاید ہی کبھی اُن کی تعریف میں دو چار جملے لکھے ہوں۔کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم لوگ اپنے اپنے نظریات کے حصار میں قید ہیں، ہمیں وہی بات درست نظر آتی ہے جو ہمارے لگے بندھے نظریات سے مطابقت رکھتی ہے۔ اپنے ایک دوست سے جب میں نے متھیرا والے اشتہار کا ذکر کیا تو اُس نے کہا کہ اگر تمہیں وہ اشتہار قابل اعتراض لگا ہے تو اُس پر ضرور لکھنا چاہئے اور ’اپنے لبرل دوستوں کی ناراضی کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔‘یہ بات چونکہ عزیز دوست نے کی تھی اور دوستوں سے محبت ہوتی ہے سومیں نے بحث نہیں کی اور ’جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا۔‘پہلی مرتبہ مجھے ٹی وی پر ایک اشتہار قابل اعتراض لگااور میں نے بلا جھجک اور بلا تاخیر اُس پر قلم اٹھایا حالانکہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف لکھنا زیادہ ضروری تھا۔اب گیند مذہبی دانشوروں کے کورٹ میں ہے، دیکھتے ہیں کب وہ اسی شدت کے ساتھ پولیس کے غریب جوانوں کو شہید کرنے والی تنظیم کے لتے لیتے ہیں جس شدت کے ساتھ وہ ہر دوسرے دن عورت مارچ کی خبر لیتے ہیں۔۔(بشکریہ جنگ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں