تحریر: عمیرعلی انجم۔۔
بھائی کیا آپ کے پاس پچاس روپے ہوں گے ؟؟؟میرے چلتے قدم اچانک رک گئے ۔۔میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک صحافی اپنی موٹر سائیکل کے ہمراہ نظر آیا ۔۔بھائی !میری موٹر سائیکل ریزرو پر ہے ۔۔گھر تک پہنچنے کے لیے پٹرول ڈلوانا ہے ۔۔آپ کی مہربانی ہوگی ۔۔کل لاہور کا ایک واقعہ سنا کہ کوئی صحافی اپنی سفید پوشی کابھرم رکھنے کے لیے گردہ فروخت کرنے پہنچ گیا ہے ۔۔ابھی ہماری سمجھ میں ہی نہیں آرہا ہے کہ کتنا بڑا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے ۔۔ہم اپنی دنیا میں مگن ہیں ۔۔عظیم رہنماؤں سے پوچھو تو وہ مالکان کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں ۔۔مالکان سے پوچھو تو کہتے ہیں کہ حکومت سے سوال کرو اور حکومت کہتی ہے کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ۔۔یہ میڈیا مالکان کا کاروبار ہے ۔۔اگر تنخواہیں نہیں دے رہے ۔۔ لوگوں کو نوکریوں سے نکال رہے ہیں تو یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے ۔۔اتنی زیادہ بے حسی ہے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کریں تو کریں کیا ؟؟؟؟صحافتی تنظیموں میں اتحاد نہیں اور جو رہنمائی کے دعویدار ہیں ان کے پاس ہمیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے ۔۔نہ یہ مالکان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈا ل بات کرسکتے ہیں اور نہ ان میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ حکمرانوں کا گریبان پکڑ سکیں کیونکہ ان کے اپنے دامن داغدار ہیں ۔۔یہ نثا ر عثمانی نہیں جو کسی ڈکٹیٹر کے سامنے سینہ سپر ہوجائیں ۔۔نوبت گردے بیچنے تک آگئی ہے۔۔۔اب ہم اور کہاں تک جاسکتے ہیں ۔۔۔میری اپنے تمام عظیم رہنماؤں سے دردمندانہ التجا ہے کہ اجتماعی کمیٹیاں بنانے کی بجائے اگر آپ صحافیوں کے لیے اجتماعی قبروں کا انتظام کردیں تو میں آپ کا احسان مند رہوں گا ۔۔۔مجھے علم ہے کہ آپ کو اس کے لیے اچھے فنڈز بھی مل جائیں گے ۔۔کچھ نہ کچھ بچ ہی جانا ہے آپ کو ۔۔میرا یقین کریں ۔۔ان صحافیوں کے اہل خانہ کے پاس اب قبر خریدنے تک کے لیے پیسے نہیں ہیں ۔۔احسان کریں ہم پر ۔۔ بینرز کی جگہ کفن خریدیں ۔۔جوائنٹ ایکشن کمیٹیوں کی بجائے اجتماعی قبریں بنائیں ۔۔۔۔(عمیر علی انجم)