bol ke wajubaat case aaini bench sunega

قبائلی عورت اور تالہ، چیف جسٹس نوٹس لیں۔۔

تحریر:انعام رانا

جناب چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان،مجھے علم ہے کہ آپ ملک کی سیاسی صورتحال و دیگر مسائل کی وجہ سے بہت مصروف ہیں لیکن میں آپ کی توجہ ایک انتہائی اہم مسلئہ کی جانب دلانا چاہتا ہوں جو اپنے حساس ہونے کی وجہ سے آپ کے فوری نوٹس کا متقاضی ہے۔

مورخہ ۳/۷/۲۳ کو انلائن جریدہ “ہم سب” میں لکھاری محترمہ طاہرہ کاظمی گائناکالوجسٹ کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے “ویجائنا پر تالہ لگا ہے”۔ مضمون کا لنک لف ہے

اسی مضمون کو پانچ جولائی امسال ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی فیس بک آئی ڈی سے بھی شیئر کیا۔ لنک لف ہے:

https://www.facebook.com/tahira.kazmi.14

مضمون مذکورہ میں یہ دردناک اور سنسنی خیز انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کے قبائل میں غیرت کے نام پر بطور رسم عورت کی اندام نہانی کو تالہ لگانے کی روایت موجود ہے۔ میں جناب کی آسانی کیلئیے متعلقہ پراگراف نقل کر رہا ہوں۔

۱- “جاؤ پوچھو قبائلی علاقوں کی عورت سے جو ویجائنا پہ تالہ لگوا کر زندگی گزارتی ہے ….جس کی  چابی شوہر کی جیب میں رکھی ہوتی ہے ۔”

۲- “مسلہ یہ ہے کہ یہ لوگ بیوی کی اوقات سمجھتے ہیں گائے بھینس جیسی اور بسا اوقات اس سے بھی کم ۔  سو اس جنونی مالک کو ضرورت ہے پہرے داری کی تاکہ جانور کوئی اور کھول کر لے جا نہ سکے ۔ جیسا کہ بیوی نامی ملکیت بھی شامل ہے اس فہرست میں سو ویجائنا کو شوہر نے لگایا تالہ تاکہ عدم موجودگی میں ویجائنا رہے مقفل اور کوئی دیکھ نہ سکے ۔ بیوی ملکیت تو ہے ہی لیکن تالہ بندی کے معنی بےاعتبار ی کے بھی ہیں ۔ کیا خبر موقع ملتے ہی ناہنجار عورت کیا کر گزرے ؟ سو اسے لاکر کی طرح بند کرکے رکھنا نہایت ضروری ۔ چابی سے ویجائنا نامی لاکر کا تالا شوہر اس وقت کھولے گا جب اس نے بیوی سے جنسی تعلق قائم کرنا ہو۔ ازدواجی ضرورت کے بعد پھر سے تالہ بندی ۔”

– “ویجائنا پہ تالہ چابی کا یہ کھیل پاکستان کے قبائلی علاقوں کی میراث ہے جیسے زنانہ ختنے افریقہ ، مصر اور سوڈان کے کافی حصوں میں کیے جاتے ہیں ۔”

ڈاکٹر صاحبہ مذکورہ نے مورخہ چھ جولائی امسال کچھ دیگر ڈاکٹرز کے سکرین شاٹس بھی شیئر کئیے جنھوں نے ایسی پریکٹس کی گواہی دی۔ سکرین شاٹس اور اس میں موجود ڈاکٹرز /گواہان کی آئی ڈیز لف ہیں۔

۱- پلوشہ شہرزاد

https://www.facebook.com/palwasha.sherzad.9

۲- مہرین مہتاب

https://www.facebook.com/mehreen.mehtab

۳- نازیہ یوسف

https://www.facebook.com/profile.php?id=1641836429

جناب چیف جسٹس مندرجہ بالا تینوں پیراگراف اور دیگر ڈاکٹرز/گواہان کی گواہی یہ تاثر دیتے ہیں کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں یہ عمل عام اور رسم ہے جہاں اکثریت عورتوں کو اس عمل سے گزرنا پڑتا ہے، جیسا کہ مصنفہ نے اسے قبائلی علاقوں کی میراث کہا جہاں عورتیں اپنی زندگی تالہ لگوا کر گزارتی ہیں۔ جناب چیف جسٹس، یہ انتہائی دردناک اور باعث تشویش صورتحال ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا پسماندہ روایات، قبائلی عورت نے سب بھگتا ہے۔ اور اگر واقعی یہ الزامات/انکشافات سچ ہیں تو پھر قبائلی عورت جس ظلم کا شکار ہے اسے سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے۔ بطور منصف اعلی میری آپ سے درخواست ہے کہ اس خط کو پٹیشن بنا کر اس مسلئہ کا فوری نوٹس لیا جائے اور ایک سینیئر جج کی سربراہی میں ایک فوری تحقیقاتی کمیٹی قائم کی جائے جو ایک ماہ میں مندرجہ ذیل اقدامات کرے۔

۱- ڈاکٹر مصنفہ کو قانوناً طلب کر کے ان انکشافات کے ثبوت مانگے جائیں۔

۲- ذاتی مشاہدے کی گواہی دینے والے ڈاکٹرز و گواہان کو طلب کر کے انکی گواہی لی اور جانچی جائے۔

۳- ان ڈاکٹرز سے یہ بھی جواب طلبی کی جائے کہ کیا انھوں نے اس ظلم کو متعلقہ حکام کو رپورٹ کیا؟ اور اگر نہیں تو مجرمانہ غفلت پہ انکے خلاف کاروائی کی جائے۔

۴- مصنفہ کے بیان کردہ علاقوں میں تفتیش کی جائے کہ کہاں یہ “رسم” بطور “قبائلی میراث” نافذ ہے اور اسکے تدارک کا فوری انتظام کیا جائے۔

۵- یہ طے کیا جائے کہ کیا ان الزامات/انکشافات میں کچھ حقیقت ہے یا پھر یہ فقط جھوٹ ہیں۔

۶- اگر یہ جھوٹ ثابت ہو تو اس مضمون اور اس مبینہ رسم کی گواہی سے منسلک تمام لوگوں کے خلاف شدید کاروائی کی جائے۔

جناب چیف جسٹس، یہ اس لئیے بھی اہم ہے کہ مذکورہ کالم سوشل میڈیا پہ بے انتہا وائرل ہوا ہے اور جلد اس خبر کو بین الاقوامی میڈیا اپنی خبروں میں جگہ دے گا۔ جانب علم رکھتے ہیں کہ مغربی ممالک کچھ جگہوں پہ عورت کے اعضا کے مسخ (general mutilation) کو کس قدر سنجیدگی سے لیتے ہیں اور یہ ایک بین الاقوامی ایشو بن جائے گا۔ مزید کہ کچھ ممالک، بھارت بالخصوص اسے پاکستان میں عورت پہ ظلم اور پاکستانی معاشرے میں موجود جہالت اور بربریت کے ثبوت کے طور پہ استعمال کریں گے۔ اس لئیے بہت ضروری ہے کہ فوری طور پہ اس کے جھوٹ یا سچ ہونے کا تعین کیا جائے تاکہ ملک بے بنیاد خبر سے ہوئی بدنامی سے بچ سکے۔

جناب چیف جسٹس، مزید ازاں اگر یہ خبر غلط ہے تو یہ سماج میں بے چینی، افواہ سازی اور ایک پوری قوم کی تذلیل کی کوشش ہے جس کا فوری تدارک نہایت اہم ہے۔

میں جناب کی صحت، فرض شناسی اور حق کیلئیے ایستادگی کیلئیے دعاگو ہوں۔العارض۔۔(انعام رانا)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں