تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ سیاست سے دور ہی رہا جائے، کیوں کہ اگر ہم کسی ایک سیاسی جماعت کی برائیاں بیان کریں گے تو اس کے سپورٹرز ہم سے ناراض ہوجائیں گے،جیسے ہم ان کے ’’بہنوئی‘‘ ہوں اور ان کی بہن پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے ہوں۔۔ پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان مسلم لیگ قاف، پاکستان پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام،متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، جماعت اسلامی سمیت ملک میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں ، سب ہمارے لئے قابل احترام ہیں۔ سب سے پہلے تو آپ احباب کے لئے ایک بات سمجھنی ازحد ضروری ہے ،وہ یہ کہ کوئی بھی پروفیشنل صحافی ہوگا، وہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں ہوگا، جینئن صحافی ہمیشہ بے خوف ہوکر کسی بھی ایسی جماعت جو غلط کام کررہی ہو، غلط فیصلے کررہی ہواور ان فیصلوں سے عوام متاثر ہورہے ہوں کے خلاف کھل کر لکھے گا، چاہے اس کے سپورٹرز ناراض ہوتے ہیں یا گالیاں دیتے ہیں۔۔دوسری اہم بات، حکومت میں کوئی بھی سیاسی جماعت ہوچاہے وہ وفاق میں ہو یا صوبے میں۔۔ اگر وہ عوام کو مشکلات سے دوچار کرتی ہے تو صحافی کے لئے اس جماعت کے بڑوں کو نشاندہی کرنا ہوگی کہ ،محترم آپ کا فیصلہ غلط ہے، عوام کو ریلیف چاہئے،مزید ٹینشن نہ دیں۔۔
سیاسی جماعتوں کے اکابرین اور ان کے سوشل میڈیا سیل اب منظم انداز میں ایسے صحافیوں کی ٹرولنگ شروع کردیتے ہیں جن سے انہیں شکایت ہوتی ہے۔ بہرحال ہمیں کسی سے کوئی لینا دینا نہیں۔۔ہمیں نہ کپتان نے کبھی روٹی دی، نہ اب نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف ہمارے گھر مہینے بھر کا راشن ڈالیں گے۔۔ ہمیں تو عوام کی آواز بننا ہے، ہمیں جہاں محسوس ہوگا کہ عوام کے ساتھ غلط ہورہا ہے تو ہم ضرور نشان دہی کریں گے، چاہے کوئی ناراض ہوتا ہے تو ہو۔۔آپ سب کو سب سے پہلے مبارک باد دیتے چلیں،پاکستان رمضان المبارک میں وجود میں آیا تھا، اور اس رمضان میں ایک بارپھر پرانا پاکستان وجود میں آگیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کھانے پینے کی اشیا، پیٹرولیم مصنوعات، ڈالر، سونا اور دیگر اشیا پرانے پاکستان والے نرخوں پر ملیں گی یا نئے پاکستان سے بھی زیادہ مہنگی ہوجائیں گی۔۔
ملک میں بدترین مہنگائی نے 70سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔مہنگائی کی شرح بارہ فیصد تک پہنچ گئی ۔چینی ،گھی،چائے،گوشت، دودھ، پیٹرولیم مصنوعات، ڈالر، گولڈ، صابن، سرف، شیمپو، مسالہ جات سمیت ہر چیز کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔بجلی فی یونٹ 24روپے تک پہنچ گیا ہے۔گیس کی قیمتوں میں ساڑھے تین سو فیصد،ادویات کی قیمتوں میں پانچ سو فیصد اضافہ کیاگیا ہے۔ڈی اے پی کھاد کی بوری 7ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔۔تحریک انصاف حکومت کا موازنہ مسلم لیگ(ن)کی حکومت سے کیا جائے۔جب محمد نواز شریف وزیراعظم تھے تو چینی 55روپے فی کلو،آٹا بیس کلو تھیلا700روپے،چائے 600روپے کلو،گھی 140روپے فی کلو،بجلی فی یونٹ 12روپے،پانچ سال میں گیس کی قیمتیں نہیں بڑھائی گئیں۔ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیاگیا۔ڈی اے پی کھاد کی بوری 2500روپے میں دستیاب تھی۔تیل فی لیٹر 80روپے میں ملتا تھا۔ڈالر 100روپے سے اوپر نہیں کیاگیا۔نواز شریف کے ویژن کے مطابق مسلم لیگ(ن)کی حکومت نے پانچ سال میں 1700کلو میٹر موٹرویز بنائے۔بارہ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی۔عوام کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ(ن)حکومت کا دور ترقی اور خوشحالی کا تھا۔عوام کو یہ بھی معلوم ہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں امریکی ڈالر کو 90 سے 190 پر پہنچایاگیا،پیٹرول کو 60 سے 160 پر پہنچایا!!ڈیزل کو 70 سے 145 پر پہنچایا!!گھریلو استعمال گیس کو 900 فی صد مہنگا کیا!!سونا فی تولہ 50 ہزارسے ایک لاکھ پینتیس ہزار پر پہنچایا۔۔بجلی فی یونٹ 8 روپے سے 30 روپے یونٹ پر لے گیا۔۔گھی 16کلو کا کنستر 1800 سے 7ہزار پر پہنچایاگیا۔۔سولہ کلو کا آٹے کا تھیلا 550 روپے سے 1650 پر پہنچایاگیا۔۔چاول 40 کلو بوری 4200 سے 8000 پر پہنچایاگیا۔۔چینی فی کلو 40 روپے سے 100 روپے پر پہنچایا،اسی طرح اسطرح مختلف اشیاء خورونوش کو تباہ کن نرخوں پر پہنچایاگیا۔۔کپڑا جو عام لوگوںکو پانچ سو روپے میں آسانی سے مل جاتا تھا، اب پندرہ سو میں ملتا ہے۔۔بیرونی قرضے جو 70سال میں 25 ہزار ارب روپے تھے 3 سال میں 30 ہزار ارب روپے اضافے کے ساتھ 55 ہزار ارب روپے پر پہنچے!!!سی پیک جیسے میگا گیم چینجر پروجیکٹ کو معطل کر دیا گیا۔۔
ہمارے پچھلے وزیر اعظم بذات خود سرکاری بیوروکریٹس کی لکھی بریفنگ کو نظر انداز کرکے ان غیر منتخب دوستوں، مشیروں سے تبادلہ خیالات کر کے جب فی البدیہ تقریر کرتے ہیں تو ایسے ایسے انکشافات فرماتے ہیں کہ سائنس، تاریخ، جغرافیہ، معیشت، سیاسیات اور سما جیات کے ماہرین ان کے فرمودات سن کر ششدر رہ جاتے ہیں۔۔کپتان کے کچھ فرمان ملاحظہ کیجئے۔۔ درخت رات کو آکسیجن دیتے ہیں۔ (باٹنی والے یہ سن کر دہل گئے)۔۔ چین میں لائٹ کی سپیڈ سے تیز ٹرین چلتی ہے۔ (فزکس والوں نے سرپکڑ لئے)۔۔ جاپان اور جرمنی ہمسایہ ممالک ہیں۔ (جغرافیہ والے گنگ رہ گئے)۔۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا تو تاریخ میں ذکر ہی نہیں ملتا – (تاریخ دانوں نے دانتوں میں انگلیاں دبالیں)۔۔ پلاٹ لاٹس (پلیٹ لٹس) نئی چیز سیکھ لی۔ (میڈیکل والے خوشی سے اچھل پڑے)۔۔ کٹے، انڈے مرغیاں بیچنے سے معیشت چلتی ہے۔۔(معیشت دانوں نے مٹھیاں بھینچ لیں)۔۔ بجلی ملائیشیا سے درآمد پام آئل سے بنتی ہے۔ (الیکٹریکل انجینئرنگ والوں کو کرنٹ لگ گیا)۔۔ پانی کے لئے کھودے گئے کنوؤں سے گیس نکلتی ہے، لوگ کنوئیں میں پائپ ڈال کر چولہے جلاتے ہیں۔ (جیالوجی والے ہل گئے۔۔) پاکستان میں سال میں بارہ موسم ہوتے ہیں۔ (ماحولیات والوں نے سرپکڑلئے)۔۔
اتنا ہی کافی نہیں۔۔نئے پاکستان میں کپتان کے مشیر اور وزیربھی دورکی کوڑی لاتے تھے۔۔ایک بار فردوس عاشق اعوان نے فرمایا۔۔کھیتوں میں مٹر پانچ روپے کلو مل رہا ہے اور منڈی میں سو روپے۔ پھر مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے دعویٰ کیا۔۔ٹماٹر کراچی کی سبزی منڈی میں صرف 17 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔۔یہ سن کر ہمیں پھٹا پرانا ایک قصہ یادآگیا۔۔ایک پنجابی استاد کی لکھنو کے کسی مدرسے میں تعیناتی ہوگئی۔ ایک بار استاد جی درس وتدریس کے ساتھ حقہ نوشی میں مصروف تھے کہ چلم میں سے ایک چنگاری اڑ کر ان کی پگڑی پہ جا گری۔ایک طالب علم نے یہ دیکھا تو استاد جی سے یوں مخاطب ہوا ۔۔قبلہ استاد محترم ظل سبحانی جنت مکانی استادالاساتذہ صد ہزار تلامذہ، قبلہ یہ ہمیچ دان کَج مج زبان ایک عرض آپ کے گوشِ گزار کرنے کی جسارت چاہتا ہے کہ ایک شررِ ناہنجار حقہ شریف کی چلم مبارک سے بَردوشِ ہوا پرواز کرتا ہوا آپ کی دستارِ پُر پیچ پر براجمان ہو کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں محو ہے اگر حضور نے بر وقت اقدام۔۔۔ اتنے میں وہ چنگاری پگڑی میں سوراخ کرتی ہوئی استاد تک جا پہنچی تو اس نے بِلبلا کر پگڑی دور پھینک دی اور شاگرد کو یہ کہتا ہوا وضو خانے کی ٹونٹی کی طرف لپکا۔۔۔اوئے تیرے ادب و آداب دی۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔پرانے پاکستان میں رمضان کا پہلا عشرہ مہنگائی، دوسرا بے صبری اور تیسرا عشرہ فضول خرچی میں گزرتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔