mamnooa funding ka faisla or kaptaan ka mustaqbil

پنجاب کا ضمنی الیکشن اور تخت لاہور

تحریر:جبار چودھری

اجمل جامی صاحب طبیعت کے ملنگ ہیں ترک دنیا کے بھی قائل ہیں لیکن  ان کا واسطہ”دنیا“ سے پڑاہوا ہے۔خیرروزی روٹی کمانے کے لیے ”دنیا“سے جڑے رہنابھی ضروری ہے۔جامی صاحب پنجاب میں سترہ جولائی کو ہونے والے تمام کے تمام بیس حلقوں کا چکر لگانے والے اکلوتے صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے ٹی وی کے لیے جو پروگرام ترتیب دیے وہ بھی دیکھنے کا موقع ملااور ساتھ ہی جو تشنگی رہ گئی تھی وہ دورکرنے کے لیے ان کے ساتھ طویل گفتگو بھی ہوئی۔الیکشن کوئی بھی ہو اس کی ہار جیت کی پیش گوئی کرنا دنیا کا ایک مشکل ترین کام ہے کہ عوام کی رائے ہے کبھی بھی بدل سکتی ہے۔ کسی بھی طرف جاسکتی ہے اورپھر یہ الیکشن تو عام انتخابات کاروپ ہی دھار چکے ہیں۔جو زیادہ نشستیں جیتے گا وہی تخت لاہورکا حق دار ٹھہرے گا۔

مقابلہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی میں ہے۔ ن لیگ دس سے زیادہ سیٹوں پرکامیاب رہی تو حمزہ شہبازحکومت جاری رکھیں گے لیکن اگرپی ٹی آئی پندرہ سے اوپرنشستیں جیت گئی تو وہ پرویز الہی کو لاہور کے تخت پر بٹھائے گی کہ عمران خان  عدم اعتماد کے وقت اپنی حکومت بچانے کے چکر میں پنجاب کی پارٹی ان کی جھولی میں ڈال چکے اور اب کامیابی کی صورت میں پنجاب کی گدی بھی ان کوہی دینی ہوگی۔پنجاب کے ضمنی الیکشن کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ عمران خان خود مہم چلارہے ہیں اوردوسری طرف مریم نوازبھی میدان میں ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ الیکشن تک کوئی ایسا حلقہ نہیں بچے گا یہاں یہ دونوں قائدین نہ پہنچے ہوں۔

ملنگ کاآنکھوں دیکھا اور کانوں سنا تجزیہ ہے کہ کپتان کا پیغام یا ان کا سازش والا بیانیہ لاہور سے جھنگ اٹھارہ ہزاری  تک اورجھنگ سے لیہ ملتان اور پھر واپس پنڈی تک پہنچ چکا ہے۔ لوگ آزادی غلامی اور حقیقی آزادی کی باتیں کرتے ہیں۔ ووٹ بھی اسی بیانیے کو دینے کی کرتے ہیں  لیکن اصل امتحان پولنگ ڈے کو جیتنا ہوگا۔ نعرے بازی کرنے والے ویسے بھی ہمارے ہاں زیادہ ہوتے ہیں ٹی وی کا مائیک دیکھ کر جذباتی بھی زیادہ ہوجاتے ہیں لیکن پولنگ والا دن سو کر گزاردیتے ہیں۔ویسے تو دونوں طرف سے اٹھارہ اٹھارہ سیٹیں جیتنے کا دعویٰ ہے لیکن نشستیں چھتیس تو ہونے سے رہیں کہ دونوں کے دعوے سچ ثابت ہوجائیں۔ حلقے توبیس ہی رہیں گے اس لیے کوئی ایک ہی اٹھارہ سیٹیں جیت سکتا ہے لیکن ایسا ہوگا نہیں۔ مقابلہ سخت ہوگا۔ دونوں گھر اتنی اتنی سیٹیں جیت جائیں گے کہ ایک کی حکومت چلتی رہے اور دوسرے کی سیاست۔

واک اوور ملے گا نہ کوئی ون سائیڈڈ مقابلہ کی امید رکھے۔ پچھلے عام انتخابات میں آزاد جیتنے والے دس ارکان بحرحال ٹرمپ  کارڈ بن رہے ہیں ان کا اپنا ووٹ بینک بھی ہے اور ن لیگ کا ووٹ بھی انہیں جائے گا۔ شروع میں کچھ حلقوں میں مسائل تھے کہ ن لیگ کے سابق ٹکٹ ہولڈرناراض تھے ان میں سے دوتین تو پی ٹی آئی کی طرف چل نکلے یا آزاد لڑنے لگے اس تقسیم اور مسئلے کو ختم کرنے کے لیے مریم نوازہر حلقے میں خود جلسے کررہی ہیں تاکہ ورکرزاور ووٹرزکو بتاسکیں کہ اچھا سمجھیں یا برا اس بار چوائس بحرحال یہی منحرف لوگ ہیں ن لیگ کے ووٹرزکواپنا ووٹ پارٹی کے لیے انہی کو دینا پڑے گا۔ ان کے جلسوں کے بعد الیکشن مہم کافی بہترہورہی ہے۔ ٹی وی تجزیوں اورسرویز کے بعدآٹھ تاریخ سے پہلے حالات پی ٹی آئی کے حق میں تھے جس کا احساس ن لیگ کو وقت پر ہی ہوگیا اس لیے لاہورمیں پارٹی کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں یہ تشویش نما رپورٹیں سامنے رکھی گئیں اور کچھ اہم فیصلے کیے گئے۔ اس میٹنگ کے بعد لاہور کے دوحلقوں میں انتخابی مہم بہترکرنے کے لیے ایک صوبائی اور ایک وفاقی وزیرنے استعفیٰ دے کر مہم میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ایاز صادق اپنے حلقے میں علیم خان والی سیٹ جیتنے کی کوشش کریں گے اورسلمان رفیق  اسد کھوکھر کی سیٹ پر مہم چلارہے ہیں۔ ڈی جی خان سے اویس لغاری بھی مستعفی ہوچکے ہیں کیونکہ اس حلقے میں بھی ان کے مدمقابل کی چڑھائی کی  خبریں تھیں۔

آزاد جیت کر پی ٹی آئی میں آنے والے دس امیدواراگر اپنی سیٹیں جیت جاتے ہیں تو یہ ن لیگ کے لیے کافی ہوگا لیکن ان میں سے بھی کچھ سیٹوں پر مقابلہ کافی زیادہ سخت ہوچکا ہے۔ بھکرمیں سعید اکبر نوانی کافی مضبوط ہیں لیکن ان کے مدمقابل وہ لوگ ہیں جو پہلے ن لیگ میں تھے۔ اسی طرح جھنگ کی  ایک سیٹ پرن لیگ کا ٹکٹ ہولڈر ناراض ہوکر آزاد حیثیت میں میدان میں ہے اور نہیں اب ٹی ایل پی کی حمایت بھی حاصل ہوگئی ہے۔ ملنگ کاتجزیہ ہے کہ فیصل آباد والی سیٹ جو بھلے اجمل چیمہ نے آزاد حیثیت میں ہی جیتی تھی اب ہاتھ سے جاتی نظر آرہی ہے کہ ان کے مدمقابل ساہیاں دے منڈے کی ”رشتہ داری“ بڑے گھرکے ساتھ ہے اور ”عوام“ ان کے ساتھ ہیں۔

لاہور میں چارنشستوں پر مقابلہ ہے ان میں ملنگ کے نزدیک زیادہ چانسزدودو سے مقابلہ برابر رہنے کا ہے یہ مقابلہ کسی ایک فریق  کے لیے تین ایک تک تو جاسکتا ہے لیکن چار صفر ہونا ممکن نہیں ہے۔ لاہور میں دوسیٹیں بھی ن لیگ جیت جائے تو اس کو جیت ہی کہا جائے گا لیکن پھر وہی بات ہے کہ اصل مقابلہ پولنگ ڈے پر ہوگا۔ جس پارٹی کو پولنگ مینجمنٹ میں مہارت ہوگی وہ اس دن کامیاب ہوجائے گی۔ یہ فارمولہ صرف لاہورہی میں نہیں بلکہ پنجاب کے بیس حلقوں میں لاگوہوگا۔ ضمنی الیکشن میں ووٹرزکا رجحان اور دلچسپی انتہائی کم ہوتی ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ن لیگ کا ووٹرقدرے خاموش رہتاہے لیکن ووٹ ڈالنا نہیں بھولتا۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کاووٹرہے جو پولنگ ڈے سے پہلے بہت زیادہ شورکرنے والا ٹی وی سرویز میں بہت زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا لیکن پولنگ ڈے سوکر گزارنے کو ترجیح دیتا ہے اگر یہ رجحان  جاری رہا تو پھر پرویز الہی کو بھی اپنے گھرسونا ہی پڑے گا۔

لاہور کے چار حلقوں میں تو میرا اپنا بھی جانا ہوا ہے۔ لاہور میں علیم خان کی چھوڑی سیٹ اوراسد کھوکھر کی پوزیشن مضبوط نظر آرہی ہے۔نذیر چوہان  کی جیت کے چانسز ہیں لیکن یہاں نتیجہ الٹ بھی سکتا ہے لیکن ویلنشیا، این ایف سی، واپڈاٹاؤن کی سوسائیٹیوں پر مشتمل حلقہ ایک سو ستر میں پی ٹی آئی کی پوزیشن مضبوط لگ رہی ہے۔اس حلقے میں کپتان کے سابق قریبی  دوست اور بنی گالا کے مقیم عون چودھری کے بھائی امین چودھری اورملک ظہیر کھوکھر کے درمیان مقابلہ ہے۔ اس حلقے میں پچھلے ہفتے مریم نوازکا جلسہ بھی کروایا گیا لیکن وہ جلسہ متاثر کن تھا نہ ہی جلسے میں شریک لوگوں کی زیادہ تعداد اس حلقے کے ووٹرزپر مشتمل تھی۔

ضمنی الیکشن کا نتیجہ سترہ تاریخ کو آجائے گا۔ اس وقت دونوں جماعتوں میں مقابلے کانٹے کا ہے۔ اصل مقابلہ ووٹنگ ڈے پربہترکھیلنے کا ہوگا۔ اگر حقیقت پر مبنی تجزیہ کیا جائے توضمنی الیکشن کے نتائج کچھ ایسے ہوسکتے ہیں کہ سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ ن لیگ کو پنجاب میں حکومت جاری رکھنے کے لیے کم ازکم دس سیٹوں کی ضرورت ہے وہ انہیں آسانی سے مل جائیں گی۔ اور پی ٹی آئی کو بھی سات سے آٹھ سیٹیں مل جائیں گی۔ان کے پاس بھی اس الیکشن کو جھرلو کہنے کا جواز نہیں رہے گا۔حمزہ بطوروزیراعلیٰ کام جاری رکھیں گے اورعمران خان جلسے کرتے رہیں گے۔یہ اب تک کا تجزیہ کا ہے لیکن یہ پاکستان ہے پیارے یہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔۔(جبار چودھری)۔۔

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں