تحریر: علی احمد ڈھلوں۔۔
پنجاب حکومت نے گزشتہ ہفتے اس قدر پھرتی سے صحافیوں سے متعلق ایک بل ”ہتک عزت بل 2024“ منظور کیا، اس بل پر صحافی برادری میں اس قدر تشویش پائی جا رہی ہے کہ حکومت جو اپنے آپ کو میڈیا کی آزادی کی سب سے بڑی چیمپئن سمجھتی ہے،،، وہ کیسے اس قسم کے جلد بازی والے قوانین کو ایوان میں لا سکتی ہے اور پھر ایک ہی دن میں اسے منظور بھی کر سکتی ہے۔ اب یہ بل اسمبلی سے منظور ی کے بعد گورنر پنجاب کے پاس جانا ہے ،،، جس کے بعد یہ بل قانون کی شکل اختیار کرے گا اور پھر ہماری پولیس حرکت میں آئے گی اور صحافیوں کی پکڑ دھکڑ معمول کی کارروائی سمجھی جائے گی۔ اسی لیے صحافی برادری پنجاب نو منتخب گورنر پنجاب سلیم حید رکے پاس گئی ،کیوں کہ آخری اُمید وہی بچے تھے تو گورنر صاحب کا اللہ بھلا کرے کہ انہوں نے ہتک عزت بل پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مزید مشاورت کا اعلان کیا اور صحافتی تنظیموں کو یقین دلادیا کہ ہتک عزت بل پر مشاورت کے بغیر دستخط نہیں کروں گا۔گورنر ہاو ¿س میں ہونے والی ملاقات میں صحافتی تنظیموں کے وفد میں ارشاد عارف صدر سی پی این ای، سیکرٹری پی ایف یو جے، ارشد انصاری صدر پریس کلب لاہور، سابق صدر سی پی این ای کاظم خان، محمد عثمان وائس پریذیڈنٹ، ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز نوید کاشف پی بی اے، امتنان شاہد، حافظ عثمان طارق سمیت سی پی این ای، پی بی اے، پی ایف یو جے، اے پی این ایس، ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز کے نمائندے بھی شامل تھے۔ ملاقات کے بعد اب یہ بات وثوق سے بھی نہیں کہہ سکتے کہ واقعی بل پر عمل درآمد کو روک دیا گیا ہے یا یہ محض موقع کی مناسبت سے قدرے تاخیری حربے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
خیر آگے چلنے سے پہلے ہتک عزت بل کے بارے میں اگر بات کی جائے تو دراصل کے تحت حکومت ایسے خصوصی ٹریبیونل بنا پائے گی جو چھ ماہ کے اندر اندر ایسے افراد کو سزا دیں گے جو ”فیک نیوز بنانے اور پھیلانے میں ملوث ہوں گے۔“یہ سزا 30 لاکھ روپے تک ہرجانے کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ اور ہرجانے کی یہ سزا ٹریبیونل ٹرائل شروع ہونے سے قبل ہی ہتک عزت کی درخواست موصول ہونے پر عبوری حکم نامے میں سنا سکتا ہے۔ٹرائل کے بعد جرم ثابت ہونے کی صورت میں عبوری طور پر لی گئی ہرجانے کی رقم ہرجانے کی حتمی رقم میں شامل کر لی جائے گی۔ ہرجانے اور قانونی کارروائی کے علاوہ یہ ٹریبیونل ایسے شخص کا سوشل میڈیا اکاو ¿نٹ یا ایسا کوئی بھی پلیٹ فارم جس کو استعمال کرتے ہوئے مبینہ ہتکِ عزت کی گئی ہو، اس کو بند کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔ ہتکِ عزت یا ڈیفیمیشن ایکٹ 2024 کے تحت ان ہتک عزت ٹریبیونلز کو انتہائی بااختیار بنایا گیا ہے جن کی کارروائی کو روکنے کے لیے کوئی عدالت حکمِ امتناع جاری نہیں کر پائے گی۔اس قانون کے مسودے کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص جس کو لگے کہ اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا ہے وہ سول قوانین کے تحت مبینہ ہتک عزت کرنے والے کے خلاف کارروائی کا آغاز کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے اسے یہ ثابت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی کہ اس کی ساکھ کو حقیقی طور پر کتنا نقصان ہوا ہے۔ مسودے کے مطابق اس قانون کے دائرہ اختیار میں ہر وہ شخص آئے گا ”جو سوشل میڈیا کی ویب سائٹس کے ذریعے عوام تک پہنچانے کے مقصد سے تصاویر، آوازیں، اشارے، علامات یا تحریریں نشر کرے گا۔“ ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ایپلیکیشنز میں فیس بک، ایکس یا ٹویٹر، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک وغیرہ شامل ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت خطرناک قانون سازی کرنے میں اتنی دلچسپی کیوں رکھتی ہے جو کسی بھی عزت دار معاشرے کے لیے ناقابل قبول ہو؟ اور پھر یہی حکومت جو اقتدار میں آنے سے قبل صحافیوں کی سب سے بڑی علمبردار تھی،،، لیکن یہ لوگ جیسے ہی اقتدار میں آتے ہیں، یہ انہی کو ڈستے ہیں جنہیں وہ اپنا خیر خواہ سمجھتی ہے۔ یعنی جہاں کبھی پارٹی عوام اور ان کی آوازوں کی حمایت کرتی تھی، وہیں اب انہیں خاموش کرنے کے نئے طریقے نکال رہی ہے۔ اسی اقتداری پارٹی نے پہلے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ متعارف کرایا تھا، جو اس کے اپنے گلے کا پھندا بن گیاتھا۔ جو لوگ پنجاب حکومت پر زور دے رہے تھے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو بورڈ میں شامل کیا جائے وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ وہ اس غلطی کو دہرانے سے گریز کرے۔
بہرحال ہتک عزت ایک سماجی مسئلہ ہے، ایسا نہیں جس سے صرف پنجاب حکومت کا تعلق ہے۔ صحافی برادری نے پنجاب حکومت سے قانون پر نظر ثانی کرنے اور اتفاق رائے پر پہنچنے کے لیے صرف ایک ہفتے کا وقت مانگا تھا۔لیکن کچھ نہ ہوسکا۔ جس کے بعد اس وقت صحافتی تنظیمیں اور میڈیا مالکان حکومت سے ناراض ہو چکے ہیں اور ”ہتک عزت بل “ کو صحافتی برادری پر شب خون قرار دیتے ہوئے ”کالے قانون “ کا نام دے رہے ہیں اور احتجاج کی کال دے رہے ہیں کیونکہ پنجاب حکومت نے کسی بھی قسم کی مشاورت کے بغیر طاقت کے زور پر ہتک عزت بل کی منظوری دی ہے جس کا اطلاق الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سمیت سوشل میڈیا جس میں واٹس ایپ بھی شامل ہے تمام پلیٹ فارمز پر ہوگا اسی لئے تمام صحافتی تنظیموں ، میڈیا مالکان ، اپوزیشن اور حکومت کی اتحادی جماعتوں نے بھی ببانگ دہل کہا ہے کہ یہ شخصی آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے کی کوشش ہے کیونکہ پہلے سے قوانین موجود ہیں لیکن ان کے گھیرے میں صرف عام آدمی آتا ہے، اب مزید اس گھیرے کو تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ”جواب دہی “ کا خوف نہ رہے بایں وجہ اپوزیشن نے بھی ہتک عزت قانون کے خلاف میڈیا کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا ہے بلکہ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے تو اس بل کے واپس نہ ہونے کی صورت میں ملک گیر تحریک چلانے کا بھی اعلان کیاہے۔
سوال تو یہ ہے کہ حکومت نے اتنی عجلت میں کسی بھی قسم کی مشاورت کے بغیر ایسا متنازعہ بل کیسے اور کیونکر منظورکیا ہے ؟ تو واضح ہے کہ حکومت کی ترجیحات تشہیری منصوبوں کے ارد گرد گھوم رہی ہیں کہ اگر پنجاب میں سستی روٹی کا نعرہ لگایا تو وہ مجبوری ہے کیونکہ مہنگے داموں خراب گندم خرید چکے ہیں اور اب تو پانچ روپے کی روٹی بھی دے دیں تو بھی نقصان نہیں ہوگا مزید ناجائز کوڑا ٹیکس لگانا اور بجلی کے بلوں میں ناجائز ٹیکسوں کا ذکر جو کہ صحافی کرتے رہتے ہیں، ان کی نظر میں ڈی فیم کرنے کی سازشیں ہیں یعنی برسر اقتدار ہر وہ آئینہ توڑ دینا چاہتے ہیں جو ان کی اصل صورت دکھاتا ہے لیکن اس آڑ میں وہ غریب اور عام آدمی کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں جو کہ سوشل میڈیا پر سوال اٹھاتے ہیں کہ بتاﺅ گندم بحران کا ذمہ دار کون ہے اور دبئی لیکس کیا ہے؟ مزید برآں برسر اقتدار جماعت کے علاوہ ہر وہ شخص اس قانون کے خلاف ہے جس کے دل میں ذرابھی احساس موجود ہے۔کیونکہ سب کو نظر آرہا ہے کہ یہ آزادی رائے پر حملہ ہی نہیں
بلکہ ذاتی مفادات کے حصول کی کوشش ہے جو کہ اس قانون کی آڑ میں طاقتور با آسانی کر سکیں گے ،اسمبلیوں میں بیٹھے اراکین کا کام عوامی مسائل کو اجاگر کرنا اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لئے ایسے قوانین وضع کرنا ہوتا ہے جس سے عوام بہتر زندگی گزار سکیں اور ان کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے اور یہاں امن عامہ کی صورتحال کس سے چھپی ہے کہ کوئی تاریک راہوں میں مارا جاتا ہے ،کوئی دن کی روشنی میں غائب ہو جاتا ہے ،کوئی سر عام اندھی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے اور فریاد کوئی نہیں سنتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ارکان پارلیمان ایوان میں بیٹھ کر صرف ذاتی مفادات کا تحفظ کرنے والے قوانین بناتے اور ختم کرتے مدت اقتدار گزار دیتے ہیں اور یہ سلسلہ برسوں سے چلا آرہا ہے۔الیکشنوں میں میڈیائی آزادی کا راگ آلاپتے نہیں تھکتے لیکن جیسے ہی برسر اقتدار آتے ہیں تو میڈیا کی زبان بندی کے لئے سر جوڑ لیتے ہیں کیونکہ جمہوریت کے نام پر شخصی آمریت چلاتے ہیں تو کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ جمہور سوال کرے یعنی جواب دہی سے بچنے کے لئے ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جن کا مقصد ایسا خوف پھیلانا ہے کہ لوگ سچ لکھنے ، بولنے اور سوال پوچھنے کی ہمت نہ کریں اور برسر اقتدار من مانیاں اور ریشہ دوانیاں کرتے پھریں تبھی چین کی بانسری بجا رہے ہیں ورنہ کیسے ممکن تھا کہ ہتک عزت بل منظور ہونے پر اپوزیشن نے کاپیاں پھاڑ دیں ،ان کی اپنی اتحادی جماعت نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا ،میڈیا مالکان و کارکنان بھی اس بل کے خلاف نعرے لگاتے پریس گیلری سے واک آﺅٹ کر گئے لیکن پھر بھی بل کی منظوری دے دی گئی یعنی کسی کی پرواہ نہیں ہے ؟
آج ہر ذی شعور یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے: یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جب سے اتحادی حکومت برسر اقتدار آئی ہے ہر وہ قانون پاس کرواتی جارہی ہے جس میں ان کا ذاتی مفاد پوشیدہ ہوتا ہے اور جو مفاد سے ٹکراتا ہے اس قانون کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ایسے مقاصد کے حصول کے لیے عہدوں اور وزارتوں کی بندر بانٹ جاری ہے یعنی ہر طرف اندھیر نگری مچی ہے اوراس پر حکم دیا جارہا ہے کہ جو زنجیر عدل ہلائے اس کے سر پر گر جائے۔۔ایسی شخصی آمریت کا خواب تو ہمارے اسلاف نے نہیں دیکھا تھا !درحقیقت مسئلہ سچ لکھنے والوں سے ہے تو ایسے کتنے لوگ رہ گئے ہیں یعنی موجودہ صحافیوں کو دو حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے ، اولاً ایسے شاہ دماغ ہیں جنھیں نام و نمود سے کچھ نہیں لینا بس وطن سے محبت کا بخار چڑھا ہوا ہے اور دوئم ایسے دانشور جن کی تنقید حق بات پر مبنی ہو نہ ہو ان کا مدعا مخالف نظریات رکھنے والے حکمران پر حرف گیری کرنا ہوتا ہے اور ممدوح حکمران کے ہر عمل کو سراہنا ہوتا ہے کیونکہ انھیں بھی مفادات عزیز ہیں پھر چند شبنم کی بوندیں سیلاب کیونکر لا سکیں گی ؟