punjab hatak izzat bill 2024

پنجاب ہتک عزت بل دوہزار چوبیس۔۔ کیا ہے؟

خصوصی رپورٹ۔۔

پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جانے والا مجوزہ  ’’پنجاب ہتک عزت بل 2024ء

1۔ اس ایکٹ کو پنجاب ہتک عزت ایکٹ 2024 ء کہا جا سکتا ہے۔

؍اس کا دائرہ کار پورے پنجاب تک ہوگا۔

؍ یہ فوراً نافذ العمل ہوگا۔

2۔ اس ایکٹ میں:

؍’’ایکٹ‘‘ کا مطلب پنجاب ہتک عزت ایکٹ 2024ء ہے۔

؍’’براڈکاسٹنگ‘‘ یا ’’براڈکاسٹ‘‘ کا مطلب ہے ہر قسم کی تحریروں، اشاروں، سگنلز،تصاویر اور آوازوں کی تشہیر، بشمول کوئی بھی  الیکٹرانک ڈیوائس، جس کا مقصد سوشل میڈیا ویب سائٹس، ایپلی کیشنز اور پلیٹ فارمز (بشمول لیکن ان تک محدود نہیں، فیس بک، انسٹاگرام، ایکس/ ٹوئٹر، واٹس ایپ، ٹک ٹاک وغیرہ) کے ذریعے عوام تک پہنچانا ہے،یا تو براہ راست یا ریلے سٹیشنوں (سیٹلائٹ) کے ذریعے، اس کے ذریعے:

؍وائرلیس ریڈیو الیکٹرک مواصلات کی ایک شکل جس میں ہرٹزین لہروں کا استعمال کیا جاتا ہے، بشمول ریڈیو ٹیلی گراف اور ریڈیو ٹیلی فون، یا

؍کیبلز، کمپیوٹرز، تار، فائبر آپٹک لنکج یالیزر بیم، یا

؍کوئی دوسرا الیکٹرانک یا انفارمیشن ٹیکنالوجی میڈیم یا ٹیکنالوجی۔

؍’’دعویٰ‘‘ سے مراد ایک شکایت یا درخواست کی شکل میں دعویٰ ہے جو ٹربیونل کے سامنے اس کی دفعہ 11 کے تحت دائر کیا گیا ہے، تاکہ دعویدار کے حق میں اور مدعا علیہ کے خلاف نقصانات اور اخراجات کیلئے فرمان جاری کیا جا سکے۔

؍’’دعویدار‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو ہتک عزت سے متاثر ہو کر اس ایکٹ کے تحت ٹریبونل کے سامنے دعویٰ کرتاہے۔

؍’’کوڈ‘‘ سے مراد ہے کوڈ آف سول پروسیجر 1908, (V of 1908)۔

؍ ’’آئینی عہدہ‘‘ سے مراد صدر، گورنر، چیف جسٹس آف پاکستان، سپریم کورٹ کے ججز، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ، لاہور ہائیکورٹ کے ججز، وزیر اعظم، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، قومی اسمبلی کے سپیکر، سینیٹ کے چیئرمین، وزیر اعلیٰ، صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، صوبائی سمبلیوں کے سپیکرز، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین اور ممبران، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، چیف آف آرمی سٹاف، چیف آف دی  نیول سٹاف اور چیف آف دی ایئر سٹاف ہیں۔

؍ ’’اخراجات‘‘ کا مطلب ہے اور اس میں وہ اخراجات شامل ہیں جو ٹریبونل کی طرف سے ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے والی پارٹیوں کو عائد اور فراہم کیے جائیں گے۔

؍ ’’ہتک عزت‘‘ کا مطلب ہے کسی ایسے جھوٹے یا غیرحقیقی بیان یا نمائندگی کی زبانی یا تحریری یا بصری شکل میں عام شکل یا اظہار کے ذریعے یا الیکٹرانک  و دیگر جدید میڈیم، ذرائع یا آلات یا سوشل میڈیا یا کسی آن لائن یا سوشل میڈیا ویب سائٹ، ایپلی کیشن یا پلیٹ فارم کے ذریعے اشاعت، نشر یا گردش کرنا، جو کسی شخص کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے یا اس کا اثر پڑ سکتا ہے یا دوسروں کے اندازے میں اسے کم تر  بناتا ہے،یا اس کا مذاق اڑاتا ہے، یا اسے غیر منصفانہ تنقید، ناپسند، توہین یا نفرت کا نشانہ بناتا ہے، اور اس طرح کی بدنامی میں کچھ جنسوں اور اقلیتوں کے بارے میں تبصرے، بیانات اور نمائندگی بھی شامل ہو گی جیسا کہ اس ایکٹ کی دفعہ 14 میں شامل ہے۔

؍’’مدعا علیہ‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جس نے مبینہ طور پر ہتک عزت کا ارتکاب کیا ہے اور جس کے خلاف دعویدارنے ٹریبونل کے سامنے دعوی دائر کیا ہے۔

؍ ’’ایڈیٹر‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس بیان کے مواد یا اسے شائع کرنے یا پھیلانے کے فیصلے کی ادارتی یا اس کے  مساوی ذمہ داری ہے، اور اس میں سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا میڈیم کا آپریٹر یا صارف بھی شامل ہے، جیسا کہ سیکشن 2کی شق(b) میں بیان کیا گیا ہے۔

؍’’عام نقصانات‘‘ سے مراد ٹربیونل کی  طرف سے ابتدائی  حکم نامہ جاری کرتے وقت دیا جانے والا ہرجانہ ہے، اگر مدعا علیہ اس ایکٹ کی دفعہ 13 کے تحت دفاع کی اجازت حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، کم از کم 30لاکھ روپے (تین ملین روپے)۔

؍’’حکومت‘‘ کا مطلب ہے   حکومت ِ پنجاب۔

؍ ’’صحافی‘‘ سے مراد کوئی بھی شخص ہے جو پیشہ ورانہ طور پر یا باقاعدگی سے کسی اخبار، میگزین، نیوز ویب سائٹ یا دیگر نیوز براڈکاسٹ میڈیم (چاہے  آن لائن ہو یا آف لائن) میں مصروف ہو اور اس میں کوئی بھی شخص شامل ہے جو سوشل میڈیا پر خبریں یا حالات حاضرہ سے متعلق مواد تخلیق کرتا اور اپ لوڈ کرتا ہے یا بصورت دیگر کسی اخبار، میگزین، نیوز ویب سائٹ یا دیگر نیوز براڈ کاسٹ میڈیم کیلئے فری لانسنگ کا کافی ٹریک ریکارڈ رکھتا ہے۔

؍ ’’ممبر‘‘ سے مراد اس ایکٹ کی دفعہ 8 کے تحت مقرر کردہ ٹریبونل کا ممبر ہے لیکن اس میں لاہور ہائیکورٹ کا خصوصی طور پر نامزد کردہ سنگل بینچ شامل نہیں ہے۔

؍ ’’اخبار‘‘ سے مراد ایک اخبار ہے، اس میں ویب سائٹ، ایپلی کیشن یا دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم شامل  ہیں جن میں عوامی خبریں، انٹیلی جنس یا واقعات یا تبصرے یا مشاہدات شامل ہیں یا صرف، یا بنیادی طور پر، اشتہارات  جو عوام میں تقسیم کرنے کیلئیپرنٹ یا الیکٹرانک طور پر یا ڈیجیٹل طور پر جاری کیے گئے ہیں اور وقتاً فوقتاً یا حصوں یا نمبروں میں شائع یا جاری کیے گئے ہیں، اور اس میں ایسے دیگر وقتاً فوقتاً کام شامل ہیں جنہیں حکومت سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن کے ذریعے اخبارقرار دے سکتی ہے۔

؍ ’’موجد یا شروعات کرنے والا‘‘ سے مراد ہتک آمیز بیان یا کسی اور ہتک آمیز فعل کا آغاز کرنے والا ہے۔

؍ ’’پارٹیوں‘‘ سے مراد ہے ٹربیونل کے سامنے کارروائی کرنے والے فریق، یعنی دعویدار اور مدعا علیہ۔

؍ ’’تجویز کردہ‘‘ کا مطلب ہے اس ایکٹ کے تحت بنائے گئے قواعد کے ذریعہ تجویز کردہ۔

؍ ’’اشاعت‘‘ کا مطلب ہے الفاظ یا بصری بیان یا نمائندگی کو بدنام کیے جانے والے شخص کے علاوہ  کم از کم کسی ایک اور شخص تک پہنچانا، اور اس میں اخبار یا نشریات شامل ہیں۔

؍  ’’پبلشر‘‘ سے مراد تجارتی پبلشر یعنی ناشر ہے یعنی  وہ شخص جس کا کاروبار کسی مواد کو عوام یا عوام کے کسی حصے تک پہنچانا یا پھیلانا ہے اور جو اس کاروبار کے دوران بیان پر مشتمل مواد جاری کرتا ہے۔

؍ ’’تعزیری نقصانات‘‘ سے مراد مدعا علیہ کی طرف سے بددیانتی،بدنیتی یا بار بار عمل ظاہر کرنے والے معاملات میں نقصانات ہیں، جو عام نقصانات کی مقدار سے دس گنا تک بڑھ سکتے ہیں۔

؍ ’’قواعد‘‘ سے مراد اس ایکٹ کے تحت بنائے گئے قواعد ہیں۔

؍’’خصوصی نقصانات’’ سے مراد وہ نقصانات ہیں جو کارروائی کے حتمی اختتام کے بعد دیے جائیں گے، اگر دعویدار ابتدائی فرمان جاری کرنے کے بعد کیس کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتا ہے اور اس طرح کے نقصانات کیلئے  اپنا دعوی قائم کرنے میں کامیاب رہا ہے، جو ٹریبونل کے ذریعہ دیے گئے عام نقصانات کے علاوہ ہوگا  اور

؍ ’’ٹربیونل‘‘ کا مطلب ہے  س ایکٹ کے سیکشن 8 کے تحت تشکیل دیا گیا پنجاب ہتک عزت ٹربیونل اور اسے لاہور ہائیکورٹ کے خصوصی طور پر نامزد کردہ سنگل بنچ کیلئے بھی ایک دوسرے کے بدلے استعمال کیا جائے گا جہاں اس ایکٹ کے تحت آئینی عہدے  کے حامل کے ذریعے  دائرہ اختیار کا استعمال کیا جاتا ہے۔

3۔ اس بل اور فی الحال نافذ کسی دوسرے قانون کی دفعات کے تحت  ہتک عزت ایک غلط کام ہو گا اور بدنام کیا گیا شخص یعنی متاثرہ اصل نقصان کے ثبوت کے بغیر اس ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کر سکتا ہے، اور جہاں ہتک عزت ثابت ہو، یہ فرض کیا جائے گا کہ متاثرہ یعنی بدنام کیے گئے شخص کو عام نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

4۔ہتک عزت کی کارروائی میں، کسی شخص کے پاس دفاع ہوگا اگر وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ صحافتی سرگرمیاں سرانجام دے رہا تھا اور عوام کی معلومات کیلئے سچی خبریں نشر کرتا ہے، وہ آن لائن پلیٹ فارم کے ذریعے عوامی مفاد میں کسی صورت حال کا منصفانہ اور شفاف انداز میں تجزیہ پیش یا بحث کر رہا تھا،جو معاملہ زیر تبصرہ ہے وہ منصفانہ اور عوامی مفاد میں ہے اور حقیقت کے دعوے کے بجائے رائے کا اظہار ہے، بیان سچائی پر مبنی ہے، دعویدار کی جانب سے اس کی اشاعت کیلئے منظوری دی گئی تھی، شکایت کردہ معاملہ مراعات یافتہ مواصلت یعنی رابطہ کاری تھی جیسا کہ وکیل اور موکل کے درمیان یا مخلصانہ تعلقات رکھنے والے افراد کے درمیان، یہ معاملہ مطلق یا اہل استحقاق کے تحت آتا ہے۔

5۔ وفاقی یا صوبائی قانون ساز اسمبلیوں میں دیے گئے بیان کی کوئی اشاعت، وہ رپورٹس، کاغذات، نوٹس اور کارروائی جسے  پارلیمنٹ یا کسی بھی صوبائی اسمبلی کے ذریعے شائع کرنے کا حکم دیا گیا ہے، عدالتی کارروائی، ریکارڈ  یا رپورٹ کا حصہ ہے، کوئی نوٹ یا معاملہ جسے حکومت کے ذریعے یا اس اس کے اختیار کے تحت لکھا یا شائع کیا گیا ہے، اسے مکمل  مطلق استحقاق کا تحفظ حاصل ہوگا۔

وضاحت: اس سیکشن میں مقننہ میں مقامی مقننہ شامل ہے اور عدالت بشمول کوئی بھی ٹربیونل یا ادارہ جو عدالتی اختیارات کا استعمال کرتا ہے۔

6۔ پارلیمانی کارروائی یا عدالتی کارروائی کی منصفانہ اور درست اشاعت یا نشریات جس میں عوام شرکت کر سکتے ہیں اور عوامی شکایات کے ازالے کیلئے حکام کو دیے گئے بیانات کو اہل استحقاق کا تحفظ حاصل ہوگا۔

7۔ اس ایکٹ کی دفعات  نافذ العمل ہونے کیلئے کسی دوسرے قانون میں موجود کسی بھی چیز سے متضاد ہونے کے باوجود اثرانداز ہوں گی۔

8۔ حکومت سرکاری نوٹیفکیشن کے ذریعے اس ایکٹ کے تحت اپنے دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کیلئے جتنے ٹربیونلز ضروری سمجھے، قائم کر سکتی ہے، ایسے ہر ٹربیونل کیلئے ممبر  کا تقرر کر سکتی ہے، جہاں وہ ایک سے زیادہ ٹریبونل قائم کرتی ہے تو نوٹیفکیشن میں ان حدود کا بتائے گی جن کے اندر یہ ٹربیونلز اس ایکٹ کے تحت اپنے اختیارات استعمال کر سکتے ہیں۔

؍حکومت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی مشاورت سے رکن کا تقرر کرے گی، لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج، سابق یا موجودہ ضلعی جج، سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ، یا لاہور ہائیکورٹ میں بطور جج مقرر ہونے کے اہل شخص کے سوا کسی کو بھی رکن مقرر نہیں کیا جائے گا۔

؍جب رکن کا تقرر عدلیہ سے کیا جانا ہو گا تو چیف جسٹس تین اہل افراد کو نامزد کریں گے جن میں سے ایک کی منظوری حکومت دیگی، اگر حکومت مطمئن نہیں تو وہ تحریری وجوہات کے ساتھ سفارش واپس کریگی جس پر چیف جسٹس نئی نامزدگیاں ارسال کریں گے جب تک طے شدہ طریقہ کار کے تحت ممبر کا تقرر نہ ہو جائے۔

؍جب رکن کا تقرر قانونی برادری سے کیا جانا ہوگا تو حکومت تین اہل افراد کو نامزد کریگی اور چیف جسٹس ایک کی منظوری دیں گے، اگر چیف جسٹس مطمئن نہیں تو تحریری وجوہات کے ساتھ سفارش واپس کر دیں گے جس پر حکومت نئی نامزدگیاں ارسال کریگی جب تک طے شدہ طریقہ کار کے تحت ممبر کا تقرر نہ ہو جائے۔

؍رکن کا تقرر ابتدائی طور پر تین سال کی مدت کیلئے یا ریٹائرمنٹ کی عمر تک ہوگا، اس تاریخ سے کیاجائیگا جس دن اس نے عہدہ سنبھالا تھا۔

؍ممبرز کے عہدے کی مدت ہر اٹھارہ ماہ بعد ایک جائزہ کمیٹی کے جائزے سے مشروط ہو گی، یہ پرفارمنس ریویو کمیٹی قواعد کے تحت تشکیل دی جائیگی۔

؍ممبر کی ریٹائر ہونے کی عمر، جو حاضر سروس ڈسٹرکٹ جج نہیں ہے،(70) ستر سال ہوگی۔

؍رکن کی تنخواہ، الاؤنس اور سروس کے دیگر شرائط و ضوابط، بشمول حاضر سروس ڈسٹرکٹ جج کی بطور رکن ڈیوٹی دیتے ہوئے، وہ ہوں گی جن کا تعین حکومت قواعد کے ذریعے کرے۔

؍حاضر سروس ڈسٹرکٹ جج کی صورت میں، وہ ایسے اضافی الاؤنس اور فوائد کا حقدار ہوگا، جو اس سیکشن اور اس ایکٹ کے تحت بنائے گئے قواعد کے لحاظ سے مقرر کردہ کسی دوسرے ممبر کے فوائد کے برابر ہوں گے۔

9۔مقرر کردہ ممبر، سوائے حاضر سروس ڈسٹرکٹ جج کے، حکومت کو اپنے ہاتھ سے لکھے گئے نوٹس کے ذریعے عہدے سے استعفیٰ دے سکتا ہے۔

؍حکومت کسی ممبر کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے مشورہ کرنے کے بعد اس کی میعاد مکمل ہونے سے پہلے عہدے سے ہٹا سکتی ہے۔

10۔ اس ایکٹ کی دفعات کے مطابق، ایک ٹربیونل کو اس ایکٹ کے تحت دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے وہ تمام اختیارات حاصل ہوں گے جو ضابطے کے تحت سول عدالت کو حاصل ہیں۔

؍ٹریبونل ان تمام معاملات میں جن کے سلسلے میں اس ایکٹ میں یا قواعد کے تحت طریقہ کار  فراہم نہیں کیا گیا، ضابطے میں طے شدہ طریقہ کار پر عمل کرے گا۔

؍ذیلی دفعہ (4) اور (5) کے تحت، اس ایکٹ کے تحت بنائے گئے ٹریبونل کے  سوا کوئی دوسری عدالت یا ٹربیونل یا عدالتی/ نیم عدالتی فورم کا  ایسے کسی بھی معاملے میں دائرہ اختیار نہیں ہو گا جس کا تعلق اس ایکٹ کے ذریعے تشکیل کر دہ ٹربیونل کے دائرہ اختیار سے ہو۔

؍کسی آئینی عہدے کے حامل کی جانب سے دائر کردہ کسی بھی دعوے کے مقصد کیلئے، دفعہ 11 کی ذیلی دفعہ (2) اور (3) کے لحاظ سے دعویٰ  لاہور ہائی کورٹ میں دائر کیا  جائے گا، اور  اس طرح کے دعوے کیلئے دائرہ اختیار اسی انداز میں استعمال ہوگا جو اس ایکٹ اور قواعد کے تحت فراہم کیا گیا ہے۔

؍اس ایکٹ کے مقصد کیلئے، ایک خصوصی سنگل بینچ کو وقتاً فوقتاً چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ  کے ذریعے لاہورہائیکورٹ کی پرنسپل سیٹ پر بطور خصوصی بینچ کے نامزد کیا  جائے گا، اس سے قطع نظر کہ اس کی علاقائی حدود یا دائرہ اختیار پر کسی بھی طرح کی رکاوٹ موجود ہے۔

؍ہتک عزت آرڈیننس، 2002 کے تحت کسی بھی عدالت یا ٹریبونل میں زیر التوا تمام کارروائیوں کی سماعت اسی عدالت کے ذریعے جاری رہے گی جو مذکورہ آرڈیننس کے تحت دائرہ اختیار رکھتی ہے، اور مذکورہ آرڈیننس کے تحت دیگر تمام طریقے اور ازالے اسی طرح دستیاب ہوں گے جو  اس ایکٹ کے نافذ ہونے سے پہلے دستیاب تھے۔

؍ٹریبونل مدعا علیہ کی پہلی پیشی کی تاریخ سے ایک سو اسی (180) دنوں کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گا۔

؍ضابطہ یا فی الوقت نافذ کسی دوسرے قانون میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود، ٹربیونل کے پاس کسی بھی دعوے یا غلط کام کے بارے میں دائرہ اختیار ہوگا، جسے پنجاب کی علاقائی حدود میں پھیلایا، گردش، موصول، پڑھا یا دیکھا گیا ہو یا، اس طرح کے مواد کے شائع یا نشر ہونے کے نتیجے میں، ایک شخص کی جو پنجاب کی علاقائی حدود میں رہتا ہے، کام کرتا ہے یا مستقل یا عارضی طور پر  اپنے فرائض کی ادائیگی کرتا ہے،بدنامی ہوئی ہو۔

؍ٹریبونل فریقین کو مقدمے سے پہلے تصفیے کا موقع فراہم کر سکتا ہے، اس معاملے کو ثالثی کیلئے ضلع میں کسی تسلیم شدہ متبادل تنازعات کے حل کے مرکز(آلٹرنیٹ ڈِسپیوٹ ریزولوشن،  اے ڈی آر) کو بھیج سکتا ہے، اگر فریقین کی رضامندی ہوتو۔

؍ اگر معاملہ درج بالا ذیلی دفعہ (8) کے تحت ثالثی کیلئے بھیجا جاتا ہے،تو ثالث کا فیصلہ حتمی ہوگا۔

؍ ٹریبونل کافی اور جائز وجوہات کی بنیاد پر وکیلوں کی اصل فیس، قانونی فیس اور اخراجات، گواہوں سے متعلق اخراجات اور قانونی چارہ جوئی کے دیگر اخراجات سمیت اصل اخراجات کا فیصلہ دے سکتا ہے۔

11۔کیس کا فیصلہ کرتے وقت، ٹریبونل  اس ایکٹ کی دفعات کے تابع، کوڈ کے آرڈر 37میں فراہم کردہ طریقہ کار کو اپنائے گا۔

؍دعویدار، ہتک عزت کے ساٹھ دن کے اندر یا ہتک عزت کا علم ہونے کے بعد، اپنا دعویٰ مدعی یا درخواست کی صورت میں ٹربیونل کے سامنے  کر سکتا ہے، جس کی تصدیق مدعی کے حلف پر کی جائے گی۔

؍کسی دعوے کی صورت میں، اگر کسی آئینی عہدے کے حامل کی طرف سے دائر کیا جانا مطلوب ہے، تو اسے کسی مجاز افسر یا وکیل کے ذریعے دائر کیا جا سکتا ہے، بغیر اس کے کہ آئینی دفتر کے حامل کو کارروائی کے دوران پیش ہونے کی ضرورت ہو۔مجاز افسر یا وکیل کی طرف سے دیا گیا کوئی بھی بیان آئینی عہدے کے حامل کا بیان سمجھا جائے گا۔

؍دعوے میں بالخصوص دعویدار کی جانب سے مانگے گئے اخراجات کے ساتھ عام، خصوصی اور تعزیری نقصانات کی رقم بیان کی جائے گی۔

؍ٹربیونل میں دعویٰ پیش کیے جانے پر مدعا علیہ کو رجسٹرڈ پوسٹ، ای میل، ایس ایم ایس، واٹس ایپ، کوریئر،ایک انگریزی یا ایک  اردو زبان کے کثیر الاشاعت روزنامہ کے ذریعے یا پھر اسی طریقے، میڈیم اور پلیٹ فارم کے ذریعے جہاں سے ہتک آمیز مواد پھیلایا گیا ہے،سمن جاری کیا جائے گا۔

12۔اس ایکٹ یا فی الوقت نافذالعمل کسی دوسرے قانون میں کسی بھی چیز کے خلاف ہونے کے باوجود کسی بھی شخص کو ٹربیونل کے سامنے زیر التوا کارروائی سے متعلق تبصرہ کرنے یا  کوئی بیان دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔

؍کسی بھی شخص کو خلاف ورزی کرنے پر، خواہ کسی شخص کی درخواست پر یا اس کی اپنی تحریک پر، ابتدائی طور پر ہر خلاف ورزی پر 50ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا جبکہ خلاف ورزی جاری رہنے کی صورت میں ہر روز 10ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ ایک سے زیادہ خلاف ورزیوں کی صورت میں ہرخلاف ورزی پر جرمانہ الگ ہوگا۔

؍اس معاملے میں کسی بھی شخص کو سیکشن 12کی ذیلی شق کی خلاف ورزی میں کوئی بھی دفاع جیسا کہ منصفانہ تبصرہ، مفاد عامہ میں بحث،رائے یا قانون سے لاعلمی وغیرہ، حاصل نہیں ہوگا۔

13۔کسی بھی صورت میں جس میں مدعا علیہ کو سمن جاری کیے گئے ہوں، وہ اس وقت تک دعوے کا دفاع کرنے کا حق دار نہیں جب تک ٹربیونل سے دفاع کرنے کی اجازت حاصل نہ کر لے،  اور ایسا کرنے کی صورت میں دعوے میں حقائق کے الزامات کو تسلیم کیا جائے گا اور ٹربیونل فوری طور پر دعویدار کے حق میں عام نقصانات کا ابتدائی فرمان منظور کرے گا۔

؍مدعا علیہ ٹربیونل کے سامنے پہلی پیشی کی تاریخ کے تیس دن کے اندر دفاع کی اجازت کیلئے درخواست دائر کرے گا۔

14۔اگر کوئی خاتون یا اقلیتی برادری کا رکن ہتک عزت کا شکار ہوتا ہے اور دفعہ 11 کی ذیلی دفعہ (2) اور (3) کے لحاظ سے اپنا دعویٰ  درج کرانا چاہتا ہے یا جہاں دفعہ 11 کی ذیلی دفعہ (2) اور (3) کے تحت دعوے کا مدعا علیہ اقلیتی برادری کی خاتون یا رکن ہے، تو ایسا دعویدار یا مدعا علیہ  وکیل یا اٹارنی کی خدمات کی فراہمی کی درخواست کرتا ہے  تو ایسی سہولت ڈسٹرکٹ اٹارنی کے دفتر کے ذریعہ  ٹریبونل کے سامنے کارروائی کے مقصد کیلئے جبکہ ایڈوکیٹ جنرل کے دفتر کے ذریعے ہائیکورٹ کے سامنے کارروائی کے مقصد کیلئے دستیاب کرائی جائے گی۔

؍صنفی حساسیت یا اقلیتی برادری سے متعلق ہتک عزت کی صورت میں، ان کیمرہ کارروائی کی درخواست کی جا سکتی ہے، جس کا فیصلہ ٹریبونل ہر کیس کے میرٹ کے حساب سے کریگا۔

15۔مدعا علیہ کی جانب سے دفاع کی اجازت حاصل کرنے میں ناکامی کی صورت میں، ٹریبونل عام نقصانات کیلئیفوری طور پر ابتدائی حکم نامہ منظور کرے گا۔

؍ذیلی دفعہ (1) کے تحت منظور شدہ ابتدائی    حکم نامہ، تمام مقاصد کیلئے(بشمول اپیل اور عمل درآمد) اس ایکٹ کے تحت منظور شدہ   حکم نامہ سمجھا جائے گا، اور اس کے تحت آنے والی یا اس پر عملدرآمد میں برآمد ہونے والی کسی بھی رقم کو حتمی فیصلے کے وقت ایڈجسٹ کیا جائے گا۔

؍نہ تو ٹربیونل اور نہ ہی لاہور ہائیکورٹ ابتدائی  حکم نامے پرعملدرآمد روکے گی جب تک کہ فیصلہ دینے والا مقروض ٹربیونل کے پاس نقد رقم جمع نہ کرائے  اور ٹربیونل اس طرح کی نقد رقم کے بدلے، کوئی ضمانت یا ضمانت قبول نہیں کرے گا۔

16۔ابتدائی حکم نامے  کے اعلان کے بعد، اس حد تک کا دعویٰ خود بخود عملدرآمد کی کارروائی میں تبدیل ہوجائے گا،عملدرآمد کیلئے  علیحدہ درخواست دائر کرنے اور اس سلسلے میں مدعا علیہ/فیصلے کے مقروض کو کوئی نیا نوٹس جاری کرنے کی ضرورت نہیں۔

؍ٹریبونل کی طرف سے منظور کردہ فرمان کو ضابطہ اخلاق یا فی الوقت نافذالعمل کسی دوسرے قانون کی دفعات کیمطابق یا اس انداز میں نافذ کیا جائے گا جو ٹریبونل، حکم نامے کے حامل کی درخواست پر، مناسب سمجھے، بشمول اراضی محصولات کے بقایا جات کے طور پر وصولی، یا فیصلے کے مقروض کی گرفتاری اور حراست  کی صورت میں۔

؍ٹریبونل اس سیکشن کے تحت دیے گئے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پنجاب پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والیاداروں کی خدمات اور مدد حاصل کر سکتا ہے۔

17۔اس ایکٹ میں شامل کسی بھی چیز کے باوجود، دعویدار اپنی ساکھ قائم کرنے کا پابند نہیں ہوگا، لیکن یہ کافی ہوگا اگر وہ مدعا علیہ کے خلاف اس کی مذمت کیلئے عام نقصانات کے علاوہ کوئی نقصان ثابت کرتا ہے۔

18۔ضابطہ یا فی الوقت نافذ العمل کسی دوسرے قانون میں موجود کسی چیز کے باوجود، اگر مدعا علیہ پیش نہیں ہوتا یا جان بوجھ کر ٹریبونل کے سامنے پیش ہونے سے گریز کرتا ہے، تو ٹریبونل  یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ مدعا علیہ نے جان بوجھ کر نوٹس  سے گریز کیا یا پیش نہ ہونے کا انتخاب کیا ہے، تو ایسا یکطرفہ حکم یا فیصلہ دے سکتا ہے جو اسے مناسب لگے۔

؍یکطرفہ حکم یا فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کیلئے، مدعا علیہ ٹریبونل کے اطمینان کیلئے فرمان کی رقم کے برابرسکیورٹی   فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوگا، اور اسے تسلی بخش وجہ بتانا ہوگی کہ اسے اس طرح کے حکم یا فیصلے کی منظوری کا علم نہیں تھا، یا اسے ٹریبونل کے سامنے پیش ہونے سے روکا گیاتھا۔

19۔ ٹریبونل، متنازعہ مسائل اور قانونی چارہ جوئی کے اخراجات کو کم کرنے کیلئے تیزی سے نمٹانے کے مفادمیں،فریقین کو کوڈ کیآرڈر XII کا سہارا لینے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔

20۔جھوٹے، فضول اور پریشان کن دعوؤں کی صورت میں، ٹریبونل دعویدار کے خلاف تعزیری جرمانے کا حکم دے گا، جیسا کہ اس ایکٹ کے تحت فراہم کیا گیا ہے۔

21۔جہاں ہتک عزت ثابت ہو جائے، ٹربیونل مدعا علیہ کو غیر مشروط معافی مانگنے کا حکم دے سکتا ہے، اگر مدعی کیلئے قابل قبول ہو، اور اسے اسی انداز میں اور اسی اہمیت کے ساتھ شائع کرنے کی ہدایت کر سکتا ہے جس طرح ہتک آمیز بیان دیا گیا تھا،  اورایکٹ کی شرائط میں ہرجانے کی ادائیگی کیلئے بھی۔

؍جہاں ہتک عزت ثابت ہو، ٹربیونل ان نقصانات کے علاوہ جو حکم دیا گیا ہے اور معافی مانگنے کی ہدایت کیعلاوہ، متعلقہ ریگولیٹری اتھارٹی کو مدعا علیہ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو معطل یا بلاک کرنے کی ہدایت بھی جاری کر سکتا ہے، یا اس ایکٹ کے تحت آنے والا کوئی دوسرا ذریعہ یا پلیٹ فارم جس کے ذریعے ہتک آمیز مواد کو پھیلایا گیا تھا۔

22۔کوڈ آف سول پروسیجر، 1908 (V of 1908)  اس ایکٹ کے تحت ہونے والی کارروائیوں پر لاگو ہوتا ہے،جہاں اس ایکٹ کے تحت کوئی مخصوص طریقہ کار فراہم نہیں کیا گیا۔

23۔قانون شہادت 1984 (P.O. No.10 of 1984)  کا اطلاق ایکٹ کے تحت ہونے والی کارروائی پر نہیں ہوگا۔

24۔ اس ایکٹ میں کچھ بھی فی الوقت نافذکسی قانون کے تحت مجرمانہ توہین یا بدزبانی کیلئیکسی بھی کارروائی کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔

25۔ اس طرح بدنام کیے گئے شخص کے نوٹس یا علم میں ہتک عزت کا معاملہ  آنے کے بعد ساٹھ (60) دنوں کے اندر ایکٹ کے تحت دعوی دائر کیا جائے گا۔

26۔سیکشن 10 کی ذیلی دفعہ 4 کے تحت ٹریبونل یا ہائیکورٹ کے حتمی فیصلے اور حکم نامے سے پریشان کوئی بھی شخص اس فیصلے اور حکم نامے کے پاس ہونے کے تیس (30) دنوں کے اندر لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کر سکتا ہے۔ ایسی اپیل کی سماعت لاہور ہائیکورٹ کے دو ججوں پر مشتمل بنچ ساٹھ (60) دنوں کے اندر کرے گا۔

؍بشرطیکہ ٹریبونل کے کسی عبوری حکم کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی جائے گی۔

؍بشرطیکہ ٹربیونل کی کارروائی پر روک لگانے کیلئے کوئی حکم امتناع نہیں دیا  جائے گا اور ابتدائی یا حتمی حکم نامے کے خلاف اپیل کی صورت میں حکم نامے یا عملدرآمد کی کارروائی پر روک صرف لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار کے پاس مساوی رقم جمع کرنے پر لگائی جائے گی، یہ رقم اپیل کو حتمی نمٹانے تک منافع بخش سکیم میں رکھی جائیگی۔

27۔حکومت سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن کے ذریعے،اس ایکٹ کے مقصد کو پورا کرنے کیلئے قواعد بنا سکتی ہے۔

28۔اس ایکٹ میں موجود دفعات کے تابع، ہتک عزت آرڈیننس، 2002 اس طرح منسوخ کیا جاتا ہے۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں