تحریر: مسرور احمد۔۔
کیا “ہمارا مشن صحت مند پنجاب “کے نعرے کے تحت 2012میں بننے والی فوڈ اتھارٹی کی کارکردگی بھی باقی سرکاری اداروں کی دیکھا دیکھی مکھی پر مکھی مارنے کے مترادف ہے؟ اس سوال کا جواب آپ اپنے گردو پیش قائم ہوٹلوں یا غذائی اشیاء فراہم کرنے والی دکانوں کے کھانے یا دودھ، دہی وغیرہ کے معیار سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔اگر اس تناظر میں فوڈ اتھارٹی کا جائزہ لیا جائے کہ اس نے عام آدمی کومعیاری غذائی اشیاء کی فراہمی کو ممکن بنا دیا ہے تو اس ادارے کی کارکردگی صفر ہے۔ شائد دیگر سرکاری اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی چند” لاڈلے بیروزگاروں ” کو روزگار فراہم کرنے کا ایک وسیلہ بنا ہے اور جہاں تک اس کے مینڈٹ، دائرہ کاراور قیام کے اغراض و مقاصد کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں افسوسناک حد تک یہ ادارہ بھی دیگر بہت سے اداروں کی طرح عوام پر ایک بوجھ سے کم نہیں ہے۔ایک طرح سے دیکھا جائے تو کاروبار کرنے والوں کو ہراساں کرنے کے عمل میں ایک اور ادارے کا اضافہ ہوا ہے وگرنہ کچھ نہیں۔ اب نہ صرف کھانوں کا معیار مزید گر گیا ہے بلکہ دام بھی بہت بڑھ گئے ہیں، دوسری طرف ہوٹلوں میں صفائی ستھرائی ندارد ۔ اس میں کافی حد تک ہوٹل مالکان اور عوام کو غذائی اشیاء کی فراہمی کے کاروبار سے وابستہ افراد بھی قصور وار ہیں جو اپنا رنگ ڈھنگ بدلنے کی بجائے سرکاری اہلکاروں کو رشوت دے کر کام چلانے کی روش کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگر فوڈ اتھارٹی واقعی اپنے کام میں سنجیدہ ہے تو اسے عوام کو ناقص اشیاء کی فراہمی کے معاملے میں زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل کرنا ہو گا۔
فوڈاتھارٹی کو ناقص غذا کی روک تھام کیلئے عوامی آگاہی مہم کو تیز کرنے اور غذا کی جانچ پڑتال کیلئے مزید لیبارٹریاں قائم کرنا ہوں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ مزید قانون سازی کے ذریعے اس کے اختیارات اور دائرہ کار کو مزید وسعت دینے کی بھی ضرورت ہے۔فوڈ اتھارٹی کو نیوٹک، ٹیوٹا اور دیگر فن اور ہنر سکھانے والے اداروں کے ساتھ اور پبلک پرائیویٹ اشتراک کے ذریعے مرحلہ وار تمام ہوٹلوں کے عملے کو تربیت فراہم کرنے کے پروگرام کا آغاز کرنا چاہئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جس کا دل چاہتا ہے منہ اٹھا کے ہوٹل قائم کر لیتا ہے اور لوگوں کی صحت سے کھیلنا شروع کر دیتا ہے۔ فوڈ اتھارٹی کے لائسنس کے بغیر فوڈ کے کاروبار سے وابستہ افراد کو قطعی طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔مزید یہ کہ فوڈ اتھارٹی کے لائسنس کو مذکورہ شعبے میں تربیت یافتہ افرادی قوت سے مشروط کیا جانا چاہئے۔تربیت یافتہ عملے کے بغیر کسی بھی سطح پر کوئی بھی ہوٹل قائم کرنے کی اجازت نہ دی جائے اور گاہے بگاہے فوڈ اتھارٹی کے اہلکاروں کو ان ہوٹلوں کی انسپکشن کرنی چاہئے اور ایس او پیز کی خلاف ورزی پربھاری جرمانے اور بندشیں عائد ہونی چاہئیں۔حکومت کو مرحلہ وار اس عمل کا آغازہر شہر سے کرتے ہوئے اسے پورے ملک تک پھیلانا چاہئے تاکہ شہریوں کی صحت کو یقینی بنایا جا سکے۔ فوڈ اتھارٹی کا موجودہ سٹرکچر اور کام کا طریقہ روائیتی ہے جس سے عوامی سطح پر معیاری غذائی اشیاء کے نظام کی فراہمی میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آ سکتی۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے فوڈ اتھارٹی کو ایک متحرک ادارہ بنانے کیلئے دلچسپی لی تھی اور شروع میں اتھارٹی کا رعب اور دبدبہ قائم تھا جو اب ختم ہو کے رہ گیا ہے چنانچہ ہر طرف عوام کو ناقص اور غیر معیاری غذائی اشیاء کی فراہمی کا چلن عام ہے۔
عوام کو غذائی اشیاء بیچنے والے ہر ہوٹل کے باہر فوڈ اتھارٹی کا شکایا ت بکس ہونا چاہئے تاکہ شہری اپنی شکایات آسان طریقے سے پہنچا سکیں۔ شکایات کا اندراج کرنے کیلئے آن لائن طریقہ کار یا ہیلپ لائن کا اجراء بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فوڈ اتھارٹی مختلف ہوٹلز کی کیٹیگریز بنا کر اور ہوٹل مالکان کی مشاورت سے پرائس کمیٹیاں بنا کر مختلف اشیاء کی قیمتوں کا تعین کرے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ اب یہ صورتحال ہے کہ جس ہوٹل کا جتنا دل کرتا ہے صارفین سے رقم بٹور لیتا ہے۔ پرائس کمیٹیوں کی تجاویز کردہ قیمتوں کو ہر ہوٹل نمایاں طور پر آویزاں کرے تاکہ شہری لٹنے سے بچ سکیں۔ جب آپ کو کھانا بھی ناقص ملے اور اسکی قیمت بھی ٹھیک ٹھاک ادا کرنی پڑے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ اسی طرح دودھ، دہی اور دیگر غذائی اشیاء کی فراہمی کے کاروبار سے وابستہ افراد کیلئے بھی باقائدہ ایس او پیز اور مناسب تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے کام کو بھی لائسنس سے مشروط کیا جانا چاہئیے۔ ایک بات طے ہے کہ بہترین اور میرٹ پر منتخب ہونے والے سرکاری ملازمین کے بغیر کوئی مقاصد بھی حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ آج ہر ادارہ اسی لئے تباہ وبرباد ہے کہ ہم نے چن چن کے نالائق لوگ سرکاری اداروں میں اکٹھے کر دیے ہیں اور بعض سرکاری اداروں میں ملازمین باقائدہ مافیاز کے انداز میں کام کرتے ہیں۔ پہلے این ٹی ایس اور اب پنجاب پبلک سروس کمیشن میں بھرتی کے “طریقہ کار” بلکہ طریقہ واردات کے بعد ہمارے اداروں کی کارکردگی پر جو بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں ان کا جواب واضح ہے کہ ہم پروفیشنل ازم سے کوسوں دور ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئیے کہ سرکاری اداروں میں سب سے بہترین افرادی قوت کو بھرتی کیا جائے لیکن ہمارے ہاں کا چال چلن الٹ ہے جس سے ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں زوال کے اعشاریے واضح ہیں۔ کہنے کو ہم مسلمان ہیں اور ملاوٹ اور ناقص اشیاء کے بارے میں واضح دینی احکامات ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے بازاروں میں معیاری ا ور خالص اشیاء کو ڈھوندناجوئے شیر لانے سے کم نہیں۔اس صورتحال میں کیا فوڈ اتھارٹی اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ براء ہو سکے گی؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔(مسرور احمد)۔۔