press club mein digital sahafat workshop 17 november ko hogi

پنجاب اسمبلی کا کالا قانون،اناللہ وانا الیہ راجعون۔۔

خصوصی رپورٹ۔۔

ملک بھر کی صحافتی تنظیموں نے پنجاب اسمبلی سے تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے متفقہ طور پر منظور کئے گئے آزادی صحافت کے مخالف قانون کو جمہوریت کے چوتھے ستون پر بدترین حملہ قراردیتے ہوئے مشترکہ طور پرمسترد کردیا ہے۔لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری اور پنجاب اسمبلی پریس گیلری کمیٹی کے صدر افضال طالب کی مشترکہ صدارت میں ہونیوالے اجلاس میں کہا گیا کہ برصغیر کی پارلیمانی تاریخ میں کبھی ایسا کالا قانون منظور نہیں کیا گیا جس کے تحت ارکان اسمبلی اور اسمبلی سیکریٹریٹ کے افسروں پر مشتمل عدالتی کمیٹی کو کسی بھی خبر کو گرفت میں لاکر متعلقہ صحافی کو 3 ماہ کے لئے جیل بھیجنا ا ور ہزارں روپے جرمانے کی سزاسنانے کا اختیار حاصل ہو اور یہ کمیٹی اسمبلی حدود میں بغیر وارنٹ اور پولیس کے ذریعے صوبے کے کسی بھی حصے سے وارنٹ کے ساتھ گرفتاری کا حکم دے سکے گی۔اجلاس میں مشترکہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ آپس کی تمام دھڑے بندیاں ختم کرکے آئین پاکستان سے متصادم اس متنازع قانون کے خلاف مشترکہ احتجاجی لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا جس کے تحت ایوان میں متنازع بل پیش کرنیوالے چاروں ارکان پنجاب اسمبلی مخدوم عثمان (پیپلزپارٹی)، میاں شفیع محمد (تحریک انصاف) ،ساجد احمد بھٹی (مسلم لیگ ق) اور ملک احمد خان (مسلم لیگ نون) کے لاہور سمیت ملک کے تمام پریس کلبز میں داخلے اور ان کی میڈیا کوریج پر پابندی لگا دی گئی ہے۔اجلاس کے دوران یہ متفقہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ تمام تنظیموں کے لیڈروں پر مشتمل کمیٹی سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہی،سیاسی جماعتوں کے اکابرین سے مذاکرات کے دروازے کھلے ر کھے جائیں گے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ ،متنازع قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے،سوشل اور قومی میڈیا کے ذریعے بل کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے اورلاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے ا ور صوبے کے تمام بڑے اور چھوٹے شہروں کے پریس کلبز کے سامنے احتجاجی کیمپ لگائے جائیں گے۔اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ اگر حکومت نے متنازع قانون میں ترمیم کرکے آزادی صحافت مخالف شقوں کو حذف نہ کیا تواس تحریک کے آخری مرحلے میں ملک بھر کے صحافی پنجاب میں جیل بھرو کے نعرے کے تحت گرفتاریاں دینا شروع کردیں گے۔اجلاس میں بتایا گیا کہ نئے متنازع قانون کے تحت جوڈیشل کمیٹی کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی خبر یا آرٹیکل یا ٹی وی پر تبصرے کوسپیکر یا ارکان اسمبلی کا استحقاق مجروح ہونے کا تاثر لے کر متعلقہ صحافی یا رائٹر کے خلاف اس قانون کے تحت کارروائی کردے۔اجلاس میں صدر پریس کلب لاہور کے علاوہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے مختلف دھڑوں کے لیڈروں ذوالفقارعلی مہتو،راجہ ریاض،حامد ریاض ڈوگر،بخت گیر چودھری ، پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے قمرزمان بھٹی،خواجہ آفتاب حسن،احسان بھٹی،حامدنواز،الیکٹرانک میڈیا رپورٹرز ایسوسی ایشن کے عابد خان،سلیم شیخ،فوٹو جرنلسٹس ایسوسی ایشن لاہور کے صداقت مغل،لاہور پریس کلب کے سینئر نائب صدر جاوید فاروقی،سیکرٹری زاہد چوہدری، جوائنٹ سیکرٹری خواجہ نصیر،ممبر گورننگ باڈی عمران شیخ،سابق سیکرٹری لاہور پریس کلب شفیق اعوان اور سابق خزانچی سالک نواز،سابق سینئر نائب صدر پی ایف یوجے نواز طاہراور خزانچی ارشد یاسین،سابق صدر پی یو جے احسن ضیاء،سابق سیکرٹری پریس گیلری کمیٹی عدنان فاروق اورشہزاد ملک کے علاوہ سینئر صحافیوں سعدیہ صلاح الدین،صلاح الدین بٹ،امریز خان،یاسین ملک،عطیہ زیدی،اطہر کاظمی،قیوم زاہد،شجاعت حامد،حبیب چوہان،قاضی طارق،حافظ نعیم،اخلاق باجوہ،ندیم شیخ ، عدنان محمودشیخ،خاور بیگ اور دیگر شامل تھے۔(خصوصی رپورٹ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں