تحریر: سرورمنیر راؤ۔۔
پی ٹی وی کی کہانی چار دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ پی ٹی وی نے 30سال سے زائد عرصے تک ایوب خان،یحییٰ خان، ضیا ء الحق اور پرویز مشرف کے آمرانہ دور اور باقی عرصہ نام نہاد جمہوری دور کے تابع گزرا۔ اس پورے عرصے میں صرف انتخابات کے دوران قائم نگران حکومتوں میں پی ٹی وی نے چند ماہ ایک قومی ادارے کے طور پر کام کیا۔ باقی تمام عرصے میں یہ قومی ادارہ حکمران سیاسی جماعتوں کی خواہشات کے مطابق چلتا رہا۔
پی ٹی وی کو پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی “ماں”کہا جاتا ہے۔ آج ملک میں جتنے بھی نجی ٹی وی چینلز چل رہے ہیں ان کے لیے ابتدائی افرادی قوت، تکنیکی صلاحیت اور پیشہ وارانہ رہنمائی پاکستان ٹیلی ویژن کے پروفیشنلز نے ہی فراہم کی۔ اس وقت بھی اکثر نجی چینلز کا انتظام و انصرام چلانے میں پی ٹی وی کے پرانے اور تجربہ کار لوگ معاونت کر رہے ہیں۔
1975میں جب میں نے پی ٹی وی کو بطور نیو ز پروڈیوسر،رپورٹر جوائن کیا تو پی ٹی وی کی عمر بمشکل گیارہ سال تھی ۔ان ایام میں بھی نیوزاور حالات حاضرہ میں درخواست دینے کی اہلیت کم از کم ایم اے سیکنڈ ڈویژن ہوا کرتی تھی۔
36سال تک پی ٹی وی میں نیوز پروڈیوسر، رپورٹر،جنرل مینیجر، ڈائریکٹر نیوز اینڈ کرنٹ افئیرز رہتے ہوئے میں نے 26ایم ڈیز کے دور دیکھے جن کی یادیں اور باتیں میرے حافظے میں بہت حد تک محفوظ ہیں۔ 1964سے لے کر 2003تک پاکستان کے سیاسی نظام میں پی ٹی وی کی مناپلی قائم رہی، نجی ٹی وی چینلز کے آنے کے بعد پی ٹی وی کی الیکٹرانک مناپلی تو ختم ہو گئی لیکن حکومتی ترجمان کے طور پر اس کا کردار اب تک حاوی ہے۔
یہ ادارہ جو 1964میں ریڈیو پاکستان کے ایک گوشے(کینٹین کو پہلا ٹی وی اسٹوڈیو بنایا گیا) سے شروع ہوا،اب پھیل کر ایک سلطنت بن چکا ہے۔ کھرب ہا روپے کے عمارتی اثاثے، ارب ہا روپے کے تیکنیکی آثاثے اورکثیر تعداد میں پیشہ وارانہ مہارت کی حامل افرادی قوت نے اس ادارے کو ملک بھر میں ایک منفرد حیثیت کا حامل بنا دیا۔پی آئی اے کی طرح پی ٹی وی بھی ملک کے اندر اور باہر پاکستان کی پہچان ہے۔پی ٹی وی کی پہلی دہائی ہنی مون کا گولڈن پیریڈ تھا۔
دوسری دہائی میں پروفیشنل ازم اور ٹیکنالوجی متعارف ہوئی، تیسری دہائی میں گلیمر اور اشتہارات کی رہی ۔چوتھی دہائی میں اس کی مناپلی ختم ہوئی اور مسابقت کا دور آیا جو اب بھی ہے۔آج کے دور میںبھی پی ٹی وی پاکستان کا سب سے بڑا نشریاتی نیٹ ورک ہے۔ اس کے پاس سب سے بہتر تیکنیکی سہولتیں ہونے کے ساتھ ساتھ تجربہ کار، تربیت یافتہ پروفیشنلز کا گروپ موجود ہے۔
یہ ادارہ اب بھی ایک متحرک نیٹ ورک ہونے کی وجہ سے ملک کے سماجی، ثقافتی، تعلیمی اور سیاسی رویوں پر اثر انداز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ سب کام تب ہی ہو سکتے ہیں جب حکومتی سطح پر پی ٹی وی کی اس صلاحیت کا ادراک ہو اور اسے ایک حکومتی کے بجائے قومی ادارے کے طور پر چلانا چاہیں۔
سرکاری کارپوریشنوں اور اداروں میں اخراجات کو متناسب سطح پر رکھنے کا فارمولا یہ ہے کہ تنخواہوں اور اسٹیبلشمنٹ کا خرچ 25اور 28فی صد سے زائد نہ ہونے دیا جائے۔ پی ٹی وی بھی اسی فارمولے کے تحت 1988تک عمل کرتا رہا۔ لیکن یہ تناسب 60فی صد سے بھی زائد ہو گیا۔جس ادارے کا ورکنگ ڈائیریکٹر بمشکل ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ اور مراعات لے وہاں سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے جانے والے افراد بغیر کام لاکھوں روپے سالانہ سال ہا سال تک وصول کرتے رہیں تو ادارہ تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔
اس ادارے میں بڑا پوٹینشل ہے۔۔ یہ ادارہ نہ صرف یہ کہ مالی اعتبار سے با آسانی منافع بخش بنایا جا سکتا ہے بلکہ پی ٹی وی دوسرے ٹی وی چینلز کے لیے ایک اکیڈیمی اور قومی رویوں کی تعمیر اور جمہوری قدروں کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اس وقت پورے ملک میں سرکاری سطح پر کوئی ٹیلی ویژن اکیڈیمی نہیں مجبوراً ہر چینل محدود وسائل اور حالات کی بناء پر جزو وقتی تربیت کا اہتمام کرتا ہے اسی بناء پر اکثر ٹی وی چینلز میں معیاری پروگرامنگ اور صحافتی اخلاقیات کے عمل میں کمی کا احساس ہوتا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ٹیلی ویژن اکیڈیمی جیسے اہم شعبے کو غیر متحرک کیوں کیا گیا ۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔