پی ٹی وی کرپشن کیس کی دلچسپ کروٹ

رپورٹ: وسیم عباسی

سرکاری ٹی وی کرپشن کیس میں حالات نے دلچسپ کروٹ لی ہے اور کیس کے تحقیقاتی افسر اور وکیل صفائی نے عدالت کے ڈاکٹر شاہد مسعود کی ضمانت مسترد کرنے کے فیصلے پر کڑی تنقید کی ہے۔ ٹی وی ا ینکر ڈاکٹر شاہد مسعود پر اپنے دور میں بطور ایم ڈی سرکاری ٹی وی جھوٹی کمپنیوں کو ٹھیکہ دینے کے ذریعے 3کروڑ 70لاکھ روپے نقصان پہنچا نے کا الزام ہے۔ وہ ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد اس وقت عدالتی ریمانڈ پر اڈیالہ جیل میں ہیں۔ عدالت نے 22دسمبر کو درخواست ضمانت مسترد کی۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے کمزور تفتیس پر ایف آئی کے تحقیقاتی افسر کاشف اعوان کر سرزنش کی اور ٹرائل کورٹ کو 6ماہ میں سماعت مکمل کرنے کی ہدایت دی۔ دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد مسعود کے وکیل ایڈووکیٹ شان خاور نے کہا کہ عدالت نے ضمانت مسترد کر کے اور ایف آئی اے کو ہدایت جاری کر کے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کی نظیر نہیں ملتی کیونکہ عام طور پر ایسے کیسز میں جہاں ملزم کے خلاف ثبوت نہ ہوں، ضمانت مل جاتی ہے ۔ شان خاور نے کہا کہ عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائیگا اور درخواست کی جائیگی کہ جج کے ریمارکس فیصلے سے حذف کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران عدالت تحقیقاتی ایجنسی کو ہدایت جاری نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ عدالت محض پیش کئے گئے ثبوت دیکھتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے کہ ضمانت دی جائے یا نہیں، تاہم اس کیس میں عدالت نے تحقیقاتی افسر تبدیل کرنے کی ہدایت کی جبکہ عدالتی ریمارکس سے کیس پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی افسر نے اپنی رپورٹ میں الزام لگایا ہے کہ شاہد مسعود نے بطور ایم ڈی سرکاری ٹی وی اپنے اختیار کا غلط استعمال کیا اور جھوٹی کمپنیوں کیلئے ادائیگیوں کی منظوری دی۔ تاہم تحقیقاتی افسر نے عدالت کو بتایا کہ اسے شاہد مسعود کے خلاف مالی کرپشن کے کوئی ثبوت نہیں ملے تو کس طرح پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 406کا اطلاق ہوسکتا ہے؟ شان خاور نے کہا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود پر کچھ بھی واجب الادا نہیں کیونکہ کیس کے دو مرکزی ملزمان نے غبن کئی گئی رقوم کا 90فیصد پہلے ہی ادا کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملزم پر انسداد کرپشن ایکٹ 1947بھی لگایا گیا ہے جو ایسے سرکاری افسر پر لگتا ہے جس نے کسی نوازش کے بدلے رشوت وصول کی ہو۔ تاہم ڈاکٹر شاہد مسعود کیس میں کسی مالی فائدے کا ثبوت نہیں لہذا کس طرح اس شق کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔سینئر وکیل کے مطابق جب دونوں الزامات غلط ثابت ہو چکے ہوں، ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف کیس ختم ہوجاتا ہے لہذا انہیں ضمانت ملنی چاہیے تھی جو کہ نہیں دی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کیس کے تحقیقاتی افسر کاشف اعوان نے بھی عدالتی فیصلے کو متضاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حقائق سے زیادہ مفروضے پر مبنی ہے۔(بشکریہ  دی نیوز)۔۔

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں