خصوصی رپورٹ۔۔
گزشتہ ایک ہفتے سے پاکستانی نژاد اور پاکستانی شہریوں کا ایک وفد اسرائیل میں موجود ہے، جہاں اس وفد کے شرکا نے پارلیمنٹ ہاؤس سمیت اہم مقامات کے دورے کیے ہیں اور اسرائیل کے صدر سمیت اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔اس دورے پر باقاعدہ اعتراضات تحریک انصاف کی سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی طرف سے سامنے آئے ہیں۔ شیریں مزاری نے اس پندرہ رکنی وفد میں شامل دو ممبران کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جن میں ایک پاکستان سے تعلق رکھنے والے صحافی احمد قریشی ہیں جبکہ دوسری سماجی کارکن انیلہ علی ہیں، جو پاکستانی نژاد امریکی شہری ہیں۔یوں تو انیلہ علی کا تعلق امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے مگر شیریں مزاری نے اپنے ٹویٹ میں ایک پرانی تصویر کی بنیاد پر ان کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز سے بھی جوڑا ہے۔
شیریں مزاری نے پاکستانی فوج کے ترجمان کو بھی اپنی ایک ایسی ہی تنقیدی ٹویٹ میں مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ احمد قریشی کے ذریعے عمران خان کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں بہت سارے امور پر بولنے پر مجبور نہ کیا جائے جن پر ابھی تک ہم چُپ ہیں۔بی بی سی نے اس دورے پر اعتراضات سے متعلق شیریں مزاری سے بات کی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے جو اعتراض کرنا تھا وہ ٹوئٹر پر کر دیا ہے اب یہ اداروں کا کام بنتا ہے کہ وہ اس بات کی تحقیق کریں کہ اس دورے کے پیچھے کیا محرکات ہیں اور کون اس سے کیا فائدے حاصل کرنا چاہتا ہے۔
وفد کے اسرائیل کے اس دورے کے مقاصد پر بات کرنے سے قبل یہ جاننا بھی اہم ہے کہ اس وفد میں پاکستان شہری بھی شامل ہے جبکہ پاکستان کے پاسپورٹ پر یہ ہدایات واضح طور پر درج ہیں کہ اس پاسپورٹ پر اسرائیل کا دورہ نہیں کیا جا سکتا۔احمد قریشی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ پاکستان کے پاسپورٹ پر عام شہری کی حیثیت سے اسرائیل آئے ہیں اور ان کے اس دورے سے حکومت یا فوج کا کوئی تعلق نہیں ہے۔شیریں مزاری کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے سرکاری ٹی وی کے ملازم نہیں ہیں بلکہ ریاست نام کے ایک پروگرام کی میزبانی کرتے ہیں اور ہر پروگرام کا انھیں معاوضہ دیا جاتا ہے۔ایک سوال کے جواب میں احمد قریشی نے بتایا کہ وہ کویت میں پیدا ہوئے ہیں مگر وہ پاکستان کے شہری ہیں۔ ان کے مطابق اس دورے میں ان کے ساتھ ایک یہودی پاکستانی بھی شامل ہیں۔احمد قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ پر انٹری اور ایگزٹ کی مہر ثبت نہیں کی جاتی باقی اس پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا جاسکتا ہے۔ ان کے مطابق اسرائیل میں ہزاروں پاکستان آ چکے ہیں اور یہاں ان کی بڑی تعداد پاکستانی پاسپورٹ پر ملازمت بھی کر رہی ہے۔ان کے مطابق اسرائیل کا دورہ کرنا جرم نہیں ہے اور نہ کبھی پاکستان نے ماضی میں کسی کو اس بنیاد پر سزا سنائی ہے۔
جب اس دورے کے مقاصد سے متعلق سوال کیا گیا تو احمد قریشی نے بتایا کہ اس وفد میں امریکہ میں ڈیموکریٹک اور ریپلکن جماعتوں کے حامی پاکستانی بھی شامل ہیں۔ ان کے مطابق اس وفد کا مقصد امن کے راستے تلاش کرنا ہے۔احمد قریشی کے مطابق اس دورے کے لیے پاکستانی امریکن کمیونٹی نے فنڈنگ کی ہے۔ ان کے مطابق دبئی کی شراکا نامی تنظیم ان کی اس دورے میں معاون ہے، جسے مختلف ممالک سے ان پرامن مقاصد کے لیے فنڈنگ ملتی ہے۔انیلہ علی کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے احمد قریشی نے بتایا کہ وہ امریکہ میں مسلم خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کے مطابق انیلہ علی مختلف مذاہب میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بھی متحرک ہیں۔انیلہ علی نے بی بی سی کو اس دورے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس دورے کا انتظام ان کی تنظیم امریکن مسلم ملٹی فیتھ ویمن امپاورمنٹ کونسل نے کیا ہے۔ ان کے مطابق وہ شراکا کی بورڈ ممبر بھی ہیں۔ انیلہ علی کہتی ہیں کہ ان کے اسرائیل کے اس دورے کا مقصد انفرادی رابطوں کے ذریعے ڈپلومیسی کرنا ہے۔اپنے ایک ٹویٹ میں انیلہ علی نے شیریں مزاری کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ پاکستانی امریکن ’پِیس میکرز‘ کے لیے نفرت بھڑکانا خود ایک غیر اسلامی اور پاکستان مخالف رویے کو ظاہر کرتا ہے۔انھوں نے واضح کیا کہ وہ پاکستانی امریکن ہوتے ہوئے امریکی فوج سے محبت کرتی ہیں کیونکہ وہ انھیں تحفظ فراہم کرتی ہے۔ انھوں نے شیریں مزاری کو مشورہ دیا کہ وہ بھی اپنی فوج اور ملک سے وفادار ہونے کی کوشش کریں۔
احمد قریشی نے تو شیریں مزاری سے فوج کو اس دورے کے لیے اس بحث میں گھسیٹنے پر معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا جب شیریں مزاری اسلام آباد میں واقع ایک سرکاری ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی سربراہ تھیں تو اس وقت کے ان کے باس اور پاکستان کے اس وقت کے وزیرخارجہ خورشید محمود قریشی نے ترکی میں اسرائیل کے وزیرخارجہ سے ملاقات کی تھی۔احمد قریشی نے بتایا کہ دس روزہ دورے کے دوران انھیں گولن ہائٹس بھی لے جایا جائے گا جہاں اسرائیل کے فوجی حکام انھیں بریفنگ بھی دیں گے۔ ان کے مطابق اسرائیل کے اس دورے سے فلسطینیوں کو کوئی مسئلہ ہے اور نہ ہی اسرائیلیوں نے کسی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ احمد قریشی کے مطابق اس دورے کے دوران انھوں نے فلسطینی اور اسرائیلی سول سوسائٹی کے نمائندوں سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔احمد قریشی کے مطابق ان کے وفد نے اسرائیل کے صدر سے 45 منٹ تک ملاقات کی ہے، جس میں پہلی بار کسی اسرائیلی حکمران نے قائد اعظم کے پورٹریٹ کو بھی تصویر میں جگہ دی ہے۔ ان کے مطابق ان کے وفد نے اسرائیلی پارلیمنٹ کا دورہ بھی کیا اور وہاں تین ارکان نے ان کے وفد کو بریفنگ بھی دی اور اجلاس کے باوجود ان اراکین نے ان کے ساتھ وقت بھی گزارا۔احمد قریشی کے مطابق وہ جلد اس دورے سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کریں گے اور اہم جگہوں کے دوروں اور اہم شخصیات سے ملاقاتوں کی تصاویر بھی جاری کریں گے۔
پاکستان میں اسرائیل کے خلاف پائی جانی والی رائے کے ہوتے ہوئے ہر حکومت کو اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے جیسے دباؤ کا سامنا رہتا ہے اور اگر حکمران اس حوالے سے کوئی نرمی برتیں تو انھیں سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ماضی میں پاکستانی حکام پر خفیہ طور پر اسرائیل سے روابط کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔پاکستان میں اسرائیل سے متعلق تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی تجاویز سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں سامنے آئیں تو عوام نے سابق صدر پر بھی اسرائیل سے دوستی کرنے جیسے الزامات عائد کیے۔سابق سفیر آصف درانی نے بی بی سی کو بتایا کہ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کا براہ راست کوئی تنازعہ نہیں ہے اور نہ اسرائیل کبھی پاکستان کے خلاف براہ راست بیانات دیتا ہے۔ ان کے مطابق اچھے تعلقات کا فائدہ ہی ہوتا ہے۔ سابق سفیر کے مطابق 57 اسلامی ممالک میں سے 36 کے اسرائیل کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔اسرائیل کے سفارتکاوں سے امریکہ کے شہر نیویارک میں اپنی ایک ملاقات کی تفصیلات بتاتے ہوئے آصف درانی نے کہا کہ اسرائیلی سفاتکاروں کے مطابق اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے تو باقی بچ جانے والے اسلامی ممالک بھی انھیں تسلیم کرلیں گے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔