PTI or aik muzaalta

پی ٹی آئی اور ایک مظالطہ۔۔۔

سینئر کالم نویس اور سینیٹر عرفان صدیقی نے اپنے تازہ کالم میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کا ہوا کھڑا کرکے انتخابات کو آگے دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ۔۔ انگریزی کا ایک محاورہ نما قول ہے ’’عمومی تاثر ،اصل حقیقت سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔‘‘ 1970ءکے پہلے عام انتخابات میں یوں لگ رہا تھا جیسے جماعت اسلامی مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی شدید مزاحمت کرے گی۔ ایسا نہ ہوا ۔1993 ء میں قاضی حسین احمد مرحوم نے ’’پاکستان اسلامک فرنٹ‘‘ کے نام سے ایسا سماں باندھا کہ آنکھیں چندھیانے لگیں۔ ’’ظالمو! قاضی آرہا ہے‘‘ کے نعروں سے دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکنے لگی۔93 میں سے صرف 3 امیدوار جیتے۔ فرنٹ محض 3.15 فیصد ووٹ لے پایا۔ اپنے کالم میں سینیٹرعرفان صدیقی نے  مزید لکھا کہ اپریل 2022ء میں عمران حکومت ختم ہوئی تو گیلپ پاکستان کے سروے کے مطابق 57 فیصد پاکستانیوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ ان میں 63فی صد خواتین تھیں۔ 2022ء کے معروف ضمنی انتخابات کو بھی اس تاثر کی ایک دلیل گردانا جاتا ہے جب قومی اسمبلی کی8 کی 8نشستوں پر عمران خان نے خود انتخاب لڑا۔6میں کامیاب رہے۔اعداد و شمار اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ اِن ضمنی انتخابات میں پولنگ کی شرح صرف 29 فیصد رہی۔ گویا 71 فیصد ووٹر ووٹ ڈالنے نہیں آئے ۔عام انتخابات میں یہ شرح 51.7 فیصد تھی۔ ایک اور تاثریا مفروضہ یہ ہے کہ اِس مرتبہ نوجوانوں کا ایک لشکر جرّار پہلی بار وو ٹر بننے جا رہا ہے۔ یہ بہت بڑا مغالطہ ہے۔ پچھلے چاروں انتخابات میں نئے ووٹرز کی شرح کم و بیش یہی رہی ہے۔ گزشتہ انتخابات (2018ء) میں نئے ووٹرز کی شرح کل رجسٹرڈ ووٹوں کا18.7فیصد تھی۔ اب یہ شرح 2.2 فیصد کم ہو کر 16.5فی صد رہ گئی ہے۔یہ حقائق بھی دلچسپ ہیں کہ18سے 24 سال کی عمر کے جوان بہت زیادہ جوش و جذبہ سے ووٹ نہیں ڈالتے۔ 2018؁ میں جب چار سو خان صاحب کا ڈنکا بج رہا تھا تو صرف 37فی صد نوجوان ووٹ ڈالنے نکلے تھے ۔ گیلپ پاکستان کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 18سے 24 سال کے ووٹ ڈالنے والے نوجوانوں میں سے صرف 35 فیصد نے پی ۔ٹی ۔آئی اور 65فیصد نے دوسری جماعتوں کو ووٹ دئیے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کا حصہ 21 فی صد تھا۔ آج تو موسم بہت بڑی کروٹ لے چکا ہے۔ کالم کے آخرمیں سینیٹڑ عرفان صدیقی نے لکھا کہ سب سے اہم اور نتیجہ خیز مشق،انتخابات کے دِن کی ہوتی ہے۔قومی اسمبلی کے ہر حلقہ انتخاب کے لگ بھگ300 پولنگ سٹیشن کیلئے پولنگ ایجنٹوں، سہولتی کیمپوں، گھر گھر رابطوں، ووٹرز کو لانے والی ٹرانسپورٹ کیلئے ہزاروں مستعد کارکنوں اور بھرپور منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ ایک فعال اور منظم جماعت ہی کر سکتی ہے۔ پی۔ ٹی۔ آئی کیا یہ سب کچھ کر پائے گی؟

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں