تحریر: رشید صافی
پی ٹی آئی کی توڑ پھوڑ غیرمتوقع نہیں،لیکن اتنی جلدی اور اتنی بڑی تعداد میں یہ ٹوٹ پھوٹ غیر معمولی ضرور ہے۔ہماری نظر میں اس کی چند وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ کسی نظریہ کی عدم موجودگی اور سیاسی پارٹی سے وابستگی کا کوئی مقصد نہ ہونا سوائے اس کے کہ ہمارا لیڈر پُر کشش ہے۔ لوگ جیل جاتے ہیں‘ لڑتے ہیں‘ وفاداری بھی دکھاتے ہیں مگر اس وقت جب انہیں اپنا مؤقف اصولی لگتا ہو اور وہ کسی نظریے سے وابستہ ہوں۔ دوسری بات یہ تاثر غلط یا درست مگر عام ہے کہ پارٹی لیڈر کے پیچھے نظام عدل کی طاقت کھڑی ہے‘ لیکن غریب کارکنوں کو وکیل میسر نہیں اور نہ کوئی دوست رشتہ دار خوف سے ساتھ دے رہا ہے کہ وہ بھی نہ دھر لیا جائے۔ تلخ لب و لہجہ‘ مستقل گالم گلوچ نے پی ٹی آئی کارکنوں کو باقی لوگوں سے الگ تھلگ کر دیا ہے۔ تیسرا یہ کہ ملزمان کو اچانک اندازہ ہوا کہ جرم کافی بڑا سرزد ہو گیا ہے اور لیڈر شپ نے تو فوری یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی ہے کہ ہم تو جانتے ہی نہیں کس نے کیا‘ یہ تو ہمارے لوگ ہی نہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ کارکنوں کو معلوم تھا کہ خان صاحب پورا سچ نہیں بول رہے لیکن ان کی تربیت ایسی ہو چکی تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ یوٹرن درست عمل ہے اور مخالفین کے خلاف خان صاحب کا ہتھیار ہے جسے استعمال کرنا جائز ہے۔ پانچویں بات یہ کہ جو شاید ہم نہیں کہہ سکتے مگر خود پی ٹی آئی والے کہہ رہے ہیں کہ ہر ایک کی وڈیو ہے۔ جب انہیں کہیں کہ باقی جماعتوں میں برداشت تھی پی ٹی آئی میں کیوں نہیں ہے تو جوابی دلیل آتی ہے کہ ان کی وڈیوز دکھائی جاتی ہیں۔ مطلب ان میں اگر ہر ایک کی وڈیوز ہیں اور پھر بھی ووٹرز ساتھ ہے تو سمجھ لیں کہ کیسی نسل تیار ہو چکی ہے جسے وڈیو دکھانا جرم دکھائی دیتا ہے مگر وڈیوز میں جو جرم ہو رہا ہوتا ہے وہ اسے نارمل سمجھتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس پارٹی کے انقلابیوں نے انقلاب کی تیاری کر رکھی تھی‘ انقلاب کی ناکامی کے بعد جو ردعمل میں ہو رہا ہے اس کی توقع کسی نے نہیں کی تھی‘ کس نے سوچا تھا کہ سابق چیف کے گھر سے ملزمان کو نکال کے گرفتار کیا جائے گا‘ ان سب وجوہات نے پی ٹی آئی کے لیڈرز اور ورکرز کا مورال زمین بوس کر دیا ہے اور پارٹی بکھر گئی۔
پاکستان اب دلدل میں پھنس چکا ہے‘ بظاہر اس بحران کا کوئی حل نہیں کیونکہ حکومت پیسے اکٹھے کرنے کیلئے مزید ٹیکس لگاتی ہے یا مہنگائی کرتی ہے تو اس سے لوگوں کی قوتِ خرید مزید کم ہو جائے گی۔ جب خریداری کم ہو جائے تو پیداوار بھی کم کرنی پڑجاتی ہے اور خرید و فروخت کم ہونے سے پیداوار پر فرق پڑتا ہے‘ دوسری طرف ٹیکس مزید کم ہو جاتا ہے یوں حکومت مزید پھنستی چلی جاتی ہے۔ مالی بحران کی وجہ سے حکومت ٹیکس بڑھاتی چلی جاتی ہے اور ٹیکس کی آمدن کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس سے نکلنے کیلئے ویژن کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی سیاسی جماعت کے پاس نہیں ہے‘ کیونکہ سات دہائی تک ہم طفیلی معیشت رہے‘ ڈالر آتے رہے ہم کھاتے رہے اور سمجھ ہی نہیں آئی کہ کرنا کیا ہے پھر ایک چلتی معیشت جو درست راستے پہ تھی‘ اسے جھٹکا دیا گیا‘ اب کسی کرشمے کا انتظار ہی کیا جا سکتا ہے۔
پرامن ماحول میں شفاف انتخابات مسائل کا دیرپا حل ہے‘ فریش مینڈیٹ کے بعد منتخب حکومت کو اپنے منشور اور ایجنڈے کے مطابق کام کا موقع میسر آئے گا۔ اس مقصد کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کا الیکشن پر اتفاقِ رائے نہایت ضروری ہے۔پی ٹی آئی سمیت ہر سیاسی جماعت کو یکساں لیول پلینگ فیلڈ ملنا چاہئے۔ جوڈیشری اور اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہے‘ حکومتی جماعتیں جوڈیشری پر جانبداری کے الزامات لگا رہی ہیں‘ پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن پر تحفظات ہیں‘ یہ تحفظات کیسے ختم ہوں گے؟ تحفظات کو ختم کئے بغیر الیکشن کی اہمیت کیا ہو گی؟ سوال یہ بھی ہے کہ مذکورہ ادارے الیکشن سے پہلے اپنی غیر جانبداری ثابت کر سکیں گے؟
نو مئی کی توڑ پھوڑ میں گرفتار پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف مقدمات درج ہیں‘ ان میں سے کئی کو سزا بھی ہو سکتی ہے‘ یہ سب پی ٹی آئی کیلئے برداشت کرنا آسان نہ ہو گا۔ خان صاحب نے مذاکرات کی پیشکش کی ہے لیکن اب دوسری طرف سے مثبت جواب نہیں مل رہا ہے‘ حکومت مذاکرات کے معاملے پر تذبذب کی شکار ہے‘ خان صاحب اگر آٹھ مئی کو بھی مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کر دیتے تو حکومت اسے قبول کرتی اور خان صاحب اپنی شرائط پر بات کرنے کی پوزیشن میں ہوتے‘ نو مئی کے بعد چونکہ تیر کمان سے نکل چکا ہے تو اب خان صاحب کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ خان صاحب کا ووٹ بینک موجود ہے مگر” الیکٹ ایبلز‘‘ انہیں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اب تک سو کے قریب اہم رہنما پی ٹی آئی سے راستے جدا کر چکے ہیں۔ ایسے حالات میں حکومت پی ٹی آئی سے بات کرنے کی بجائے جہانگیر ترین اور چوہدری سرور جیسے لوگوں سے بات چیت کرے گی جن کے پاس ”الیکٹ ایبلز‘‘ کی بڑی تعداد موجود ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ خان صاحب کا ووٹ بینک نہیں ہے‘ تاہم جب تک ”الیکٹ ایبلز‘‘ ان کے ساتھ نہیں ہوں گے الیکشن میں کامیابی تو درکنار انتخابی مہم بھی ان کیلئے ایک چیلنج بن جائے گی۔جماعت اسلامی کی عوام میں مقبولیت ہے مگر ان کے پاس” الیکٹ ایبلز‘‘ نہیں ہیں تو قومی اسمبلی میں ان کی نمائندگی کم ہوتی ہے‘ مذاکرات بھی انہی قوتوں کے ساتھ کئے جاتے ہیں جو مضبوط سیاسی ساکھ رکھتی ہوں‘ پی ٹی آئی نو مئی کے بعد اپنی سیاسی ساکھ بچانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے اس لئے اتحادی حکومت خان صاحب کی مذاکرات کی پیشکش کو سنجیدہ نہیں لے رہی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے زیر حراست خواتین کے ساتھ بدسلوکی اورجنسی تشدد کا الزام لگایا ہے‘ یہ بہت تشویشناک بات ہے‘ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی طرف سے یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ یہ سب ڈرامہ رچایا جا رہا ہے‘ اس تاثر کو زائل کرنا اور اس الزام کے تمام تر حقائق سامنے لانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جس طرح جولائی 2019ء میں رانا ثنااللہ کی بلاجواز گرفتاری پر ان کی پردہ دار اہلیہ کو باہر نکلنا پڑا‘ رانا ثنا اللہ اس وقت جس تکلیف اور کرب سے گزرے تھے آج وہ دیگر خواتین کیلئے بھی وہی درد محسوس کریں۔ پریس کانفرنس میں جواب دینا کافی نہیں‘ خواتین کی حفاظت سے متعلق اصل حقائق قوم کے سامنے پیش نہ کئے گئے تو عالمی سطح پر انسانی حقوق سے متعلق پائی جانے والی تشویش میں اضافہ ہو گا۔ گرفتاری کے بعد قیدیوں کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ان کا آئینی و قانونی حق ہے‘ اگر قیدیوں میں خواتین شامل ہیں تو ان کے حقوق بدرجہ اتم موجود ہیں۔
پی ٹی آئی کیلئے اس وقت تک مشکلات رہیں گی جب تک اعلیٰ سطح پر کوئی تبدیلی نہیں ہو جاتی۔ بظاہر اگلے تین برس تک کوئی بڑی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی مشکلات جلد ختم ہونے والی نہیں‘ لیکن اتحادی حکومت کی مذاکرات پر عدم آمادگی ویسا ہی عمل ہے جیسا اس سے قبل پی ٹی آئی کی قیادت مقبولیت اور طاقت کے زعم میں مذاکرات سے انکاری رہی ہے۔اگر تحریک انصاف حالات کا شکار ہو کر اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہو سکتی ہے تو اتحادی جماعتوں کیلئے بھی ایسے حالات پیدا ہونا بعید ازقیاس نہیں۔ کیا ضروری ہے جو غلطیاں پی ٹی آئی نے کیں‘ انہیں دہرایا جائے؟ پی ٹی آئی کو مائنس کر کے آگے بڑھنے کی سوچ سود مند ثابت نہیں ہو سکتی۔ اتحادی حکومت سیاسی کشیدگی سے نجات کیلئے اگر مذاکرات کے علاوہ کوئی منصوبہ بندی کر رہی ہے تو یہ بندوبست مزید مسائل کا باعث بنے گا۔۔(بشکریہ دنیانیوز)