تحریر: عاجز جمالی۔۔
معروف صحافی روف کلاسرا نے انکشاف کیا ہے کہ ، عمران خان کے دور میں وزیر اعظم ہائوس کے اندر سوشل میڈیا ونگ پر یہ ذمے داری تھی کہ عمران خان کے خلاف کون سے صحافی ٹوئیٹس کرتے ہیں۔ پھر ان ٹوئیٹس کے اسکرین شاٹس ڈی جی آئی ایس آئی کو بھیجے جاتے تھے ،پھر ان صحافیوں کو آئی ایس آئی کی جانب سے فون جاتے تھے کہ ٹوئیٹس ڈلیٹ کرو،۔
یہ صورتحال بالکل تھی ،2018 سے 2021 تک جاری رہی، عمران خان کے خلاف لکھنے والے صحافی عتاب میں تھے۔ جب اکتوبر 2019 میں مجھے اے آر وائی نیوز سے برطرف کیا گیا تو حکم نامے میں لکھا گیا کہ ادارہ مالی بحران میں اس لیئے آپ کو ملازمت سے فارغ کیا جاتا ہے۔ پر یہ سچ نہیں تھا، حقیقت میں اے آر وائی نیوز کو تو تب سب سے زیادہ بزنس ملتا تھا۔مجھے براہ راست تو کسی نے فون نہیں کیا تھا ،لیکن ایک سے زائد بار یہ پیغام ملا کہ اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس پر عمران خان یا پی ٹی آئی حکومت کے خلاف لکھنا چھوڑ دوں۔ خصوصی طور پر ہم نے جب کراچی پریس کلب کے باہر سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کے لیئے گورنر عمران اسماعیل کے بیانات کے خلاف احتجاج کیا تو اس کے دوسرے دن ایک صحافی دوست نے بتایا کہ تمہارے ادارے سے جلد چھانٹیاں ہونے والی ہیں اپنا خیال رکھنا۔ کچھ عرصے کے بعد مجھے ملازمت سے اچانک ایسے برطرف کیا گیا کہ اچانک لیٹر ملا اور بولا گیا کہ ابھی سے سیٹ خالی کردوں، اس برطرفی میں اکیلا میں نہیں تھا اور ساتھی بھی تھے۔ تب تو پتہ نہیں چلا لیکن چند ماہ کے بعد ایک با خبر شخص نے بتایا کہ تمہارا نام عمران خان کے نا پسندیدہ فہرست میں شامل تھا، اس لیئے اے آر وائی نیوز سے فارغ کیا گیا۔ مذکورہ با خبر شخص کے مطابق پورے پاکستان سے نا پسندیدہ صحافیوں کی لسٹ بنائی گئی ہے، ان صحافیوں کو برطرف کروانے کے لیئے آئی ایس آئی نے میڈیا ہائوسز پر دبائو ڈالا کہ ان سب کو برطرف کیا جائے۔ یہ عمران خان دور کی تلخ حقیقت ہے کہ ایک جانب من پسند صحافیوں کو نوازا گیا تھا جن کے آج بھی مزے ہیں ،لیکن میری طرح بھی سینکڑوں صحافیوں کو ملازمتوں سے نکلوایا گیا۔ ویسے تو چار سالہ دور میں ہزاروں صحافیوں کو میڈیا ہائوسز سے نکالا گیا تھا وہ ایک لمبی کہانی ہے۔ ( عاجز جمالی )