تحریر: عمار چودھری۔۔
نو مئی کی شام کو جس وقت لاہور کے علاقے گلبرگ میں ایک ٹاور میں توڑ پھوڑ ہو رہی تھی‘ وہاں کھڑی گاڑیوں اور دیگر اشیا کو نقصان پہنچایا جا رہا تھا اور پٹرول بم پھینک کر آگ لگائی جا رہی تھی عین اُسی وقت ایک ماں بھی وہاں موجود تھی جو عمارت کے مختلف حصوں کی طرف بھاگتی‘ چیختی دکھائی دے رہی تھی۔ وہ اپنے چودہ‘ پندرہ سالہ بچے کو ڈھونڈتی ہوئی یہاں آئی تھی جو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد غصے میں گھر سے نکل گیا تھا۔ اس بچے کے دوستوں کے مطابق انہوں نے اسے گلبرگ کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک وِڈیو میں یہ تمام مناظر ایک ٹی وی چینل کے کیمرے میں ریکارڈ ہوئے جس میں اینکر کیمرہ مین کے ہمراہ عمارت کے اندر داخل ہو گیا اور وہاں توڑ پھوڑ کرتے افراد کو منع کرتا رہا۔ اسی دوران وہاں ایک لڑکا آیا اور اس نے آواز دی: مون کہاں ہو تم‘ تمہاری امی باہر تمہیں ڈھونڈ رہی ہیں۔ اینکر نے بھی اس بچے کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن وہاں کا ماحول آتشیں تھا‘ ہر جانب شیشے ٹوٹنے کی آوازیں آ رہی تھیں یا آگ کے شعلے لپک رہے تھے۔ چند افراد اے ٹی ایم مشینوں کو بھی توڑ رہے تھے جنہیں اینکر نے دہائیاں دے کر باز آنے کو کہا۔ نجانے اس ماں کو اس کا مون ملا یا نہیں لیکن اس روز بہت سے والدین کو اس امتحان سے گزرنا پڑا ‘جس طرح کے امتحان سے مون کی والدہ گزر رہی تھیں۔ شاید یہ امتحان آگے بھی بہت سے والدین کو پریشان کرتا رہے کیونکہ یہ سلسلہ تب تک ختم نہیں ہو گا جب تک ہمارے سیاسی، مذہبی اور سماجی لیڈرز بچوں اور نوجوانوں کو اپنے ایجنڈوں کے لیے استعمال کرنے سے باز نہیں آ جاتے۔ وہ جانتے ہیں کہ بچوں اور ٹین ایجر کو زآسانی سے ورغلایا جا سکتا ہے اس لیے یہ بچے ہمیشہ سے ایسے گروہوں اور گروپوں کا سافٹ ٹارگٹ رہے ہیں۔بچے اور نوجوان بڑوں کی نسبت انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل دنیا سے زیادہ منسلک ہوتے ہیں اس لیے ان تک پیغام جلد اور مؤثر انداز میں پہنچایا جا سکتا ہے۔
یہ بات کئی برسوں سے کہی جا رہی تھی کہ آگے آنے والا دور پروپیگنڈا وار فیئر کا دور ہے ۔ اس ففتھ جنریشن وارفیئر میں دشمن سامنے دکھائی نہیں دیتا بلکہ وہ آڈیو یا وڈیو مواد کے ذریعے اپنے مذموم عزائم اور سازشی ایجنڈوں پر عمل درآمد کرتا ہے۔وہ جو لڑکا توڑ پھوڑ کرنے کے لیے گھر سے نکلا‘ وہ بھی ایسے ہی پروپیگنڈے کا شکار ہو کر اس حد تک جانے کو تیار ہوا ہو گا۔ اس طرح کے نجانے کتنے نوجوان ہوں گے جو اپنے لیڈرز اور انٹرنیٹ پر موجود دیگر تنظیموں اور متنازع مواد کی وجہ سے برین واشنگ کا شکار ہوکر گمراہ ہو گئے یا اب تک ہو رہے ہیں۔ آج کے والدین کے لیے چیلنجز بڑھتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے ایک طرف بچوں کو سوشلائز کرنا ہے۔ دنیا کے ساتھ میل ملاپ کا طریقہ سکھانا ہے تاکہ وہ عملی زندگی میں زیادہ سے زیادہ کامیاب ہو سکیں؛ تاہم یہ تبھی ممکن ہے جب وہ انہیں کچھ نہ کچھ فری ہینڈ دیں ۔
آج سے بیس‘ تیس برس قبل تک حالات کچھ نارمل تھے۔ تب بچوں کو باہر بھیجتے وقت والدین کو اتنی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ حالانکہ اس وقت نہ بچے کے پاس موبائل فون یا کوئی ٹریکنگ ڈیوائس ہوتی تھی نہ ہی سوشل میڈیاجیسے جدید ذرائع ابلاغ موجود ہوتے تھے۔لینڈ لائن ٹیلی فون ہوتا تھا‘ وہ بھی شہروں میں تو موجود تھا لیکن دیہات وغیرہ میں یہ سہولت اس طرح عام نہ تھی۔ کسی گائوں میں ٹاور لگا کر ایک آدھا فون لگا دیا جاتا تھا۔ جب کسی کا فون آتا تو اسے دس‘ پندرہ منٹ بعد دوبارہ کال کرنے کا کہا جاتا اور مسجد میں اعلان کروا کر یا متعلقہ شخص کے گھر پیغام بھیج کر اسے فون سننے کے لیے بلایا جاتا تھا۔ اب اگرچہ موبائل فون اور دیگر ٹریکنگ ڈیوائسز عام ہو چکی ہیں اور بچہ کہیں چلا بھی جائے تو پتا ہوتا ہے کہ کہاں ہے لیکن اس کے باوجود اب والدین بچوں کو اس طرح گھروں سے نہیں نکالتے جیسے ماضی میں اجازت دے دیا کرتے تھے۔
اگرچہ والدین ایسا بچوں کے تحفظ کے لیے کرتے ہیں مگر اس کے کئی منفی اثرات بھی رونما ہوئے ہیں‘ جن میں آئوٹ ڈور سرگرمیوں اور جسمانی ورزشوں کا فقدان سرفہرست ہے جس کی وجہ سے بچوں کی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ وہ گھروں میں بند رہتے ہیں حتیٰ کہ دھوپ میں اتنا کم جاتے ہیں کہ وٹامن ڈی کی کمی اور ہڈیوں کی کمزوری کا شکار ہو جاتے ہیں ۔دوسرا نقصان یہ ہوا کہ وہ گھر میں رہتے ہیں تو لامحالہ موبائل فون یا کمپیوٹر کے ساتھ ضرورت سے زیادہ وقت گزارنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا بیرونی دنیا سے تو رابطہ استوار ہو جاتا ہے مگر وہ اپنے اردگرد سے بالکل بے خبر ہو جاتے ہیں۔ اصولی طور پر تو بچے جو کچھ انٹرنیٹ پر دیکھتے ہیں‘ وہ مواد فلٹر ہو کر ان کے سامنے آنا چاہیے جیسا کہ ٹی وی چینلز یا اخبارات و جرائد کی صورت میں ہوتا ہے کہ وہاں کوئی نہ کوئی ایڈیٹر، ایڈیٹوریل بورڈ اور ڈائریکٹر موجود ہوتا ہے جو مواد کو مختلف سطحوں سے گزارنے کے بعد محفوظ انداز میں آن ایئر کرنے یا چھاپنے کی اجازت دیتا ہے مگر سوشل میڈیا پر کوئی روک ٹوک ہی موجود نہیں۔
گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی سربراہی میں کورکمانڈ اجلاس میں یہ نکتہ بھی زیرِبحث آیا اور سوشل میڈیا کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے متعلقہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا گیا۔کانفرنس کے شرکا نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر حملہ کرنیوالوں کے خلاف مزید تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا اور سانحۂ 9 مئی میں ملوث افراد پر آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ اسی طرح کور کمانڈرز نے بیرونی سپانسرڈ اور اندورنی سہولت یافتہ پروپیگنڈے پر شدید تشویش کا اظہار کیا جس کا مقصد عوام اور فوج میں خلیج پیدا کرنا ہے۔ جس انداز میں سیاسی احتجاج کی آڑ میں شرپسندوں نے فوج کی تنصیبات‘ جناح ہائوس اور شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا‘ وہ ناقابلِ قبول عمل تھا۔
پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے تو اسے سیاسی انداز میں ہی چلنا چاہیے۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں سمیت کئی افراد کی ایسی وڈیوز منظرِ عام پر آ چکی ہیں جن میں مظاہرین کو کنٹونمٹ علاقوں اور دیگر عسکری مقامات کا رُخ کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ جب آپ ایک مکمل چارج قسم کے مظاہرین کو اس طرح کا حکم دیں گے تو لامحالہ وہ وہاں جا کر پھول تو پیش کریں گے نہیں ۔ آپ سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف تندو تیز وڈیو پیغامات دن میں چار‘ چارمرتبہ جاری کریں گے اور اس میں حاضر سروس سینئر افسران کو نام لے کر نشانہ بنائیں گے تو کیا اس سے آپ کے ووٹرز میں نفرت کا الائو روشن نہیں ہو گا؟ یقینا ہو گا اور ہوا بھی یہی۔یہی وجہ ہے کہ حکومت نے نو مئی کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے تاکہ شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کے باعث جو شہدا کے اہلِ خانہ اور قوم کو دلی صدمہ ہوا‘ اس کا مداوا ہو سکے۔ اس سارے جلائو گھیرائو میں جن مائوں کے بچے اور نوجوان استعمال ہوئے‘ ان کا کیا قصور تھا؟ جن کے ہاتھ میں کتابیں اور جن کی انگلیاں کمپیوٹر کی بورڈ پر ہونی چاہیے تھیں‘ انہیں آپ نے ڈنڈے‘ پٹرول بم اور پتھر پکڑا دیے۔ آپ نے والدین کے لیے ایک نیا چیلنج کھڑا کر دیا‘ جو اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کی تعلیم ‘رہائش اور خوراک کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ اب انہیں اس پریشانی نے آن لیا ہے کہ کہیں ان کا بچہ کسی دہشت گردی یا شرپسندی کے عمل کا حصہ نہ بن جائے۔ وہ جنگی طیارے جنہیں دشمن نہ گرا سکا‘ انہیں پروپیگنڈے کے شکار نوجوانوں نے گرا دیا۔ وہ کیپٹن کرنل شیر خان شہید جنہوں نے دنیا کے بلند ترین محاذِ جنگ سیاچن میں دشمن کا بے پناہ نقصان کرتے ہوئے اپنی جان خدا کے سپرد کر دی‘ آپ نے اس کی یادگار کو بھی تہس نہس کر دیا۔انہی بچوں اور انہی نوجوانوں کو اگر درست سمت دکھائی جاتی تو یہ آج ملک کا نام روشن کر رہے ہوتے لیکن افسوس کہ آپ کے اس ایجنڈے نے نوجوانوں کا مستقبل دائو پر لگا دیا اور ساتھ ہی والدین کے لئے بھی نت نئی آزمائشیں کھڑی کر دیں۔ خدا ہم سب کے حال پر رحم کرے۔(بشکریہ دنیانیوز)