تحریر: محمد فہد خان۔۔
میڈیا کی فیلڈ میں ہمیں یہ بات بتائی جاتی ہے کہ میڈیا میں سنسر شپ ہوتی ہے۔ مگر جب خبر کو اپنے مفاد میں روکا جائے تو پھر اک چینل صحافت سے ہٹ کر کاروبار بن جاتا ہے، جہاں لوگوں کے بیانیے کئ کئ منٹوں کے حساب سے بک رہے ہوتے ہیں۔ میڈیا اپنے مفاد کو ملحوظ خاطر رکھ کر دوسروں کو عزت بھی دے سکتا ہے اور ذلت بھی۔ کسی کی برائی کو نظر انداز کر کے اسے انسانیت کے رول ماڈل کے طور پر بھی دکھایا جاسکتا ہے اور شریف انسان کا چہرہ اک بھیانک خواب جیسا بھی دکھایا جاسکتا ہے۔
آج موضوع گفتگو بھی سمارٹ پراپیگنڈہ اور سنسرشپ ہے۔ ہمارے ہاں میڈیا کی ایسے مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح میڈیا نے سانپ بھی ماردیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔ ماضی میں ڈٹ جانے والے صحافتی اداروں کا اور آج کے صحافتی اداروں کی خبروں کا۔ وہ وقت جب جنگ اخبار کے کئ صحافیوں کو اس وقت کے حکمران جناب نواز شریف کی جانب سے ادارے سے نکالنے کا مطالبہ کیا جانے لگا تھا مگر ادارہ اپنے کارکنوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا رہا، اس وقت خبر کو سنسر نہیں کیا گیا مک مکہ نہیں کیا گیا۔
بہر حال مجھے یاد پڑتا ہے. 2008 کا وہ دور جب میڈیا کو پابند سلاسل کردیا گیا تھا، اس وقت بھی میڈیا نے صحافت کو عبادت سمجھ کر جنگ جاری رکھی، مگر جیسے جیسے چینلز کی تعداد بڑھتی گئ تو مقابلہ بھی بڑھتا گیا، اک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں چینلز کی اپنی ساکھ بھی متاثر ہوئ۔
مشرف کا دور میڈیا کے اثر و سوخ کے حوالے سے اتنا طاقت ور نہیں تھا جتنا دور حاضر ہے۔ آج کل ہمار ا میڈیا بالی وڈ کے اس گانے کی اعلی مثال ہے گانا کچھ یوں ہے، پیسہ پھینک تماشا دیکھ، ناچے گی پنکی اور تو لیٹ۔ اس دور میں میڈیا اپنے فائدے کے ساتھ اپنے سپانسرز کا بھی خیال کرتے ہیں اور خاص کر جب آپ کو کروڑوں کے اشتہارات مل رہے ہوں تو پھر اوپر سے ہدایات آنا کوئی نئی بات نہیں۔ دوہزار تیرہ کے انتخابات میں بھی اک پارٹی کی جانب سے اک چینل پر دوسری جماعت کو سپورٹ کرنے کا الزام لگا چکی ہے۔ الزام لگانے والی پارٹی کا موقف تھا کہ یہ چینل ووٹرز پر اثرانداز ہوا ہے۔
اسی طرح 2018 کے انتخابات میں اک حد تک سیاسی جماعتوں کو سپورٹ کیا جانے لگا۔ تو اس طرح ایجنڈہ ترتیب دیا گیا، الزامات تو یہ بھی ہیں کہ ان ایجنڈوں کا چینلز کو بھر پور فنڈ دیا گیا تھا۔
یہ تو تھے الزامات اک دوسرے کو سپورٹ کرنے کے، مگر اک ایسا چینل بھی ہے جس کی خاتون اینکر کا رات کے گیارہ بجے والا اسٹنگ آپریشن کا پروگرام کافی مشہور ہے۔ اس چینل پر اک عام شہری کے گھر پلانٹڈ پروگرام کرنے کا الزام تھا، پروگرام میں شہری کے گھر چھاپہ مار کر جعلے طریقے سے پھنسانے کی کوشش کی گئی تھی۔
اس سمارٹ سنسرشپ کی اعلی مثال اک چینل اور سندہ حکومت کے درمیان ہونے والی لڑائی ہے۔ جس میں چینل اگرچہ سندہ حکومت کی کوتاہیوں کو سامنے لا رہا تھا مگر باقی صوبوں میں موجود وہ تعلیمی ادارے جہاں اب شادیاں ہوتی ہیں یا گائے کا دودھ نکالا جاتا ہے، وہ چینل یا خاموش تھا یا اتنی جاندار آواز بلند نہیں کرسکا جیسی کے اس بار کی تھی اور آج یہ چینل بھی خاموش ہے۔ کیونکہ چینل کا پہیہ بھی تو دیکھنا ہے۔
اک وقت وہ بھی تھا جب پلانٹڈ پورگرام ہوا کرتے تھے، جن میں من پسند سوالات تو کیے ہی جاتے تھے مگر اپنے لیے پلاٹ کا مطالبہ بھی کیا جاتا تھا۔
ملک ریاض کی بیٹی اور عزمہ خان والے معاملے پر معروف اینکر وجاہت سعید خان کہتے ہیں کہ میرے پورے کیریئٰر میں کئی چینلز کی جانب سے ڈکٹیشن دی جاتی تھی، کچھ لوگوں کے خلاف بولنے سے منع کیا جاتا تھا۔
اوپر تو میں نے اس طرف نشاندہی کی ہے جہاں میڈیا اپنے ذرائع اور سپانسرشپ کا نہ صرف خیال رکھتا ہے بلکہ دفاع کرتے بھی نظر آیا ہے، مگر کچھ پراپیگنڈہ چینلز اپنے مد مقابل چینلز سے بھی کرتے ہیں، اس کی بڑی وجہ اشتہارات کی جنگ میں اک دوسرے پر سبقت لیجانا بھی ہے۔ جیسے پاکستان کے دو بڑرے چینلز کی لڑائ جس میں برطانیہ میں اک پاکستانی چینل کو بھاری معاوضے کے ساتھ دیگر چینلز کی بندش کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
اوپر اک مثال دی تھی کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، ایکسپریس ٹریبیون نے بھی اسی مثال پر عمل کرنے کی کوشش کی تھی مگر ناکام ہوگیا، ہوا کچھ یوں کہ اخبار نے اپنی ویب سائٹ پر ملک ریاض کی بیٹی والے معاملے کی خبر لگادی مگر جب لوگوں نے پڑھنا شروع کی تو خبر کچھ ہی دیر بعد ویب سائٹ سے ہٹا دی گئ، جب کہ ایسی کسی خبر کا ذکر ایکسپریس کے اخبار میں نہیں تھا۔
آج کل کی سنسرشپ بھی میڈیا کی طرح تبدیل ہورہی ہے۔ اب آپ ٹی وی پر تو وہ خبر نہیں دیکھ سکتے جس سے چینل کے مالی نقصان کا اندیشہ ہو، مگر وہ خبر کسی مختلف پہلو کے ساتھ اسی چینل، اخبار ویب سائٹ پر موجود ہوگی۔ یہ دور سمارٹ سنسرشپ کا ہے۔ اس دور میں اک چینل خبر چلانے سے پہلے یہ ضرور سوچتا ہے کہ کہیں خبر چلنے کے اگلے لمحے ہی چینل کی آخری رسومات ادا کرنے کی نوبت نہ آجائے۔
آرڈر آنے سے کئی خبریں سنسر کردی جاتی ہیں۔ یہاں بات چونکہ سپانسر شپ اور ذرائع کی کر ہی لی ہے تو ذرا اب اوپر سے آنے والے آرڈرز کی بھی کر لی جائے۔ میڈیا کو کئی معاملات میں منفی خبریں چلانے سے بھی منع کیا جاتا ہے، اور اگر چینل کوئی ایسی خبر چلا دے تو اسے کیبل پر پچھلے نمبروں پر تو ڈالا ہی جاتا ہے مگر اشتہارات ملنا بھی مشکل ہوجاتا ہے جس سے چینل معاشی طور پر کمزور ہوجاتا ہے۔ کئ طریقوں سے چینلز کو وارن کیا جاتا ہے۔
اگر اک میڈیا کے مالک کے طور پر سوچا جائے تو میڈیا بھی مجبور ہے۔ آج کل کے دور میں جہاں میڈیا کے چینلز بینڈ ویگن کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اک دوسرے کے ٹرینڈ کو اپنا رہے ہوتے ہیں وہیں اشتہارات کا ملنا بھی مشکل ہوگیا ہے، یا اگر اشتہارات مل رہے ہیں تو قیمت آدھی کردی گئی ہے۔
دوسری طرف حکومتی اشتہارات کی ادایئگی بھی نہیں ہورہی تھی جو کہ اب جاکر شروع ہوئی ہے۔ ٹیکس کی ادایئگی پر بھی سختی کردی گئی ہے جس سے مشکلات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے میں اگر کہیں سے پیسہ آتا دکھتا ہے تو یہ ریگستان میں پانی ملنے کے مترادف ہے۔ کارکنوں کی اک بڑی تعداد آپکے چینل میں ہو، اور یہ ڈر بھی ہو کہ چینل معاشی صورتحال کی بنا پر کہیں بند ہی نہ کرنا پڑ جائے تو اک امید کی کرن پراپیگنڈہ تھیوری کی صورت میں نظر آتی ہے۔
آخری میں توجہ اس تھیوری کی طرف مبذول کراؤنگا جس موضوع پر یہ بلاگ لکھا ہے۔ جی ہاں، پراپیگنڈہ تھیوری۔پریپیگنڈہ تھیوری بھی یہی کہتی ہے کہ میڈیا اپنے سپانسرشپ، ذرائع کی خاطر پراپیگنڈہ کرتا ہے اور خبر سنسر بھی کرتا ہے۔(محمد فہد خان)
(بلاگر کی تحریرسے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔