تحریر: سید بدرسعید۔۔
مجھے میٹرک میں احساس ہوا کہ بہت زیادہ پڑھنا یا جاننا نقصان دہ ہوتا ہے۔۔میٹرک تک ہمیں پڑھایا جاتا رہا کہ مادہ کی تین حالتیں ہوتی ہیں ، ٹھوس ، مائع اور گیس ۔۔۔ میں چونکہ نصابی کتب پہلے سے پڑھ چکا ہوتا تھا سو غیر نصابی پنگے لیتا رہتا تھا ، اسی دوران مجھے پتا چلا کہ مادہ کی دراصل چار حالتیں ہوتی ہیں لیکن یہ چوتھی حالت سائنس دان پڑھتے ہیں ۔ ایسے ہی کچھ اور معلومات تھیں ، ریسرچ کے مطابق پاکستان چودہ کی بجائے پندرہ اگست کو بنا تھا ۔ لفظ پاکستان کے خالق چودھری رحمت علی نہیں تھے ۔ تکنیکی طور پر پاکستان توڑنے کا ذمہ دار کم ووٹ لینے والا بھٹو تھا ، انڈو پاک آنے والے مسلم حملہ آوروں کی اکثریت کا مقصد اسلام پھیلانا ہرگز نہیں تھا ۔ ایسی ہی بہت سی معلومات ہمارے نصاب میں نہیں تھی ، میں نے پیپر میں مادہ کی چار حالتیں لکھیں تو سر نے نمبر کاٹ لیے ۔ انٹر تک مجھے معلوم ہو گیا کہ ہمارے یہاں اساتذہ بھی خود کو اپ ڈیٹ نہیں رکھتے لہذا یا تو جواب لکیر کے فقیر کی طرح مکمل رٹا ہونا چاہیے یا پھر ایسے حوالے ہوں کہ استاد لوگ بھی چکرا جائیں لہذا میں ایک بار موضوع سمجھ لیتا اور پھر اپنی جانب سے اردو انگلش نام مکس کر کے ان کے ساتھ سر ، پروفیسر کے اعزازات جوڑتا اور طویل ترین جواب لکھ دیتا ۔ الحمد اللہ درویش نے اس وقت کے تمام ریسلرز کے اگلے پچھلے ناموں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر انہیں ایک ماہر تعلیم ، پروفیسر یا سر آرنلڈ بنا کر اتنے حوالے دیے کہ ممتحن بھی سوچتا ہو گا یہ عالی دماغ کہاں سے آ گیا جس نے ابن خلدون تک پڑھ رکھا ہے ، ابن خلدون کی روح البتہ خوب تڑپی ہو گی ۔ پھر میں سوشل میڈیا پر آیا تو معلوم ہوا یہاں بھی اکثریت انہی ماسٹروں سے پڑھ کر آئی ہے جو رٹے سے آگے جہاں اور بھی ہیں کے قائل نہیں تھے ۔
سوشل میڈیا پر آپ تحقیقی بات کریں تو آپ کو گالیاں پڑیں گی ، آپ یہاں یہ بتانے کی جرات نہیں کر سکتے کہ مادہ کی تین نہیں چار حالتیں ہیں ، یہاں کاپی پیسٹ کلچر کا راج ہے ،یہاں تصدیق جرم سمجھی جاتی ہے اور یہاں ہر بندہ دانشور ہے ، دانش البتہ اپنے گھر تک محدود ہے ۔ سوشل میڈیا ایک ایسا پروپگنڈا ٹول بن چکی ہے جہاں آپ تیزی سے اپنی مرضی کی ڈس انفارمیشن پھیلا سکتے ہیں ۔ مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ ہم کس طرح اپنے نوجوانوں کو ان پراپگنڈا سیلز سے بچنے کی تربیت دیں ۔ کچھ طاقتیں پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو ان کی لاعلمی میں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہیں اور نوجوان حب الوطنی کے نام پر استعمال ہو رہے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے افغان جنگ میں امریکی ڈالرز لینے والوں نے جہاد کے نام پر پاکستانی نوجوانوں کو استعمال کیا یا جس طرح طالبان جنت کے نام پر خودکش بمبار کو استعمال کرتے رہے ۔ ہمارے نوجوان سیاسی میدان میں بھی استعمال ہو رہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ انہیں اس کا احساس دلانے پر بھی گالیاں پڑتی ہیں ۔اب آخری حل تو یہی ہو سکتا ہے کہ جو استعمال ہوتے رہنا چاہیں انہیں اسی طرح استعمال کیا جائے جیسے ہم مطالعہ کا ذوق نہ رکھنے والے ماسٹر جی کو سر آرنلڈ اور ابن خلدون کے خود ساختہ حوالے دے کر نمبرز کے لئے استعمال کر جاتے تھے۔ یاد رہے آپ کی کمزوری ہی دوسرے کی طاقت بنتی ہے۔۔(سید بدر سعید)۔۔