تحریر: ظہیر اختر بیدری۔۔
آج کا دور پروپیگنڈے کا دور ہے، ہر جھوٹ کو پروپیگنڈے کے ذریعے سچ ثابت کرنا ایلیٹ کلاس کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، پروپیگنڈہ اب ایک فن ایک آرٹ بنا ہوا ہے، سیاسی پارٹیاں خاص طور پر ایلیٹ مارکہ سیاسی پارٹیاں اس منظم انداز میں ماہرانہ طریقوں سے پروپیگنڈہ کرتی ہیں کہ بے چارے عوام اس سفید جھوٹ کو سچ سمجھ کر پرپیگنڈہ بازوں کی باتوں میں آجاتے ہیں اور خود اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔
ہماری سیاسی جماعتوں میں بھی ایسے ایسے ماہر پروپیگنڈہ باز ہیں کہ شاید دنیا کے کسی ملک میں اس ٹکر کے پروپیگنڈہ باز نہیں ملیں گے۔دنیا کی مہذب حکومتیں اس حوالے سے ابھی طفل مکتب نظر آتی ہیں۔ ہمارے تیز و طرار حکمرانوں اور سیاستدانوں کے سامنے مہذب دنیا اس حوالے سے طفل مکتب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ۔
حکومت کی کارکردگی اور اپوزیشن کی لوٹ مار کی داستانیں سنانے کا کام جن حضرات کے ذمے کیا گیا ہے، وہ یہ کام بخوبی انجام دے رہے ہیں، پچھلے دنوں ایک خاتون مشیرا اپوزیشن کی خرابیوں اور بدعنوانیوں کے واقعات سلو موشن میں سناتی تھیں۔ ادھر ہماری اپوزیشن کی بمباٹ پروپیگنڈہ مہم کے مقابلے میں یہ خاتون خاصی کمزور لگتی تھیں ، ہماری تنقید کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں بلکہ عمران حکومت کی غیر عاقلانہ پالیسیوں کی نشاندہی کرنا ہے، دیر ہی سے سہی حکومت کو یہ خامی نظر تو آئی۔
اگرچہ اب بڑی حد تک اپوزیشن کے پروپیگنڈے کا جواب دیا جا رہا ہے لیکن چونکہ اپوزیشن میں بھی ایک سے بڑا ایک گھاگ بیٹھا ہوا ہے سو اس حوالے سے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اب بھی اپوزیشن کا پلہ بھاری ہے۔ حکومت پر تنقید اپوزیشن کا حق ہے اور یہ حق اس سے چھینا نہیں جاتا، اسی طرح حزب اقتدار کا حق جواب دینا ہے اور یہ حق اس نہیں چھینا جاسکتا لیکن جب کھلی بدتمیزیوں اور گالم گلوچ شروع ہوجائے تو پھر حکومت اور اپوزیشن دونوں کا امیج خراب ہوتا ہے۔
آج کل ہماری مہذب اپوزیشن بھی حکمرانوں کے حوالے سے جو زبان استعمال کر رہی ہے اسے دھنگری زبان کہا جاسکتا ہے اور کمال کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن ’’چینی، آٹا چور سرکار نہیں چلے گی‘‘ کے نعرے لگا رہی ہے، عوام کی یادداشت اتنی کمزور نہیں کہ وہ اپوزیشن کی صفوں میں موجود اصل چینی اور آٹا چوروں سے ناواقف ہوں بات چینی یا صرف آٹے کی نہیں ہے، بات اربوں، کھربوں کی لوٹ مار کی ہے جس کی داستانیں ملک کے بچے بچے کی زبان پر ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان قومی جرائم پر حکومت نے کیا کیا؟ بڑی مشکل سے ایک آدھ بیان داغ دیا اللہ اللہ غیرصلہ۔ اربوں روپوں کی لوٹ مار کی کہانیاں اگر درست ہیں تو پھر ہماری مہربان حکومت نے ان مثالوں کے حوالے سے کتنی پبلسٹی کی کتنا پروپیگنڈا کیا۔ یہ سوال اس لیے اٹھتا ہے کہ ایسے کنفرم ایشو پر بھی حکومت چپ کا روزہ رکھے تو پھر اس کی پروپیگنڈہ مہم کا مقصد کیا ہے۔
آج اپوزیشن کا رویہ اس قدر جارحانہ اس لیے ہے کہ حکومت بڑی بیک فٹ پر ہے اور اپوزیشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کمزور دلائل پیش کرنے کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ہمارا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بدتمیزی کا جواب بدتمیزی، بدکلامی کا جواب بدکلامی سے دیا جائے بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ غلط اور جھوٹے الزامات کی دبنگ طریقے سے تردید کی جائے اور مثبت جواب دیے جائیں جہاں تک چینی اور آٹا چوری کا حکومت پر الزام ہے اس حوالے سے صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘ پچھلے 12 سالوں میں کیا کچھ ہوا اور کس قدر مضحکہ خیز انداز میں ہوا، اس کا خیال کرکے شرم آتی ہے۔
آج بھی اپوزیشن کی سرکردہ جماعت کے پکے اور کچے صدور پر کرپشن کے الزامات ہیں، نواز شریف کو اس حوالے سے 10 سال کی سزا ہوئی ہے، شہباز شریف کو بار بار نیب کا بلاوا آ رہا ہے۔ وہ نیب کی حاضری سے بچنے کے لیے کورونا کے مریض بن گئے ہیں۔خدارا اپنی صحت کا خیال رکھیے اور کورونا جیسی خطرناک بلا خوفناک بیماری میں مبتلا ہونے کا بہانہ بھی مت کیجیے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔