تحریر: امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب۔۔
کچھ دن ہوئے پنجاب کے 708کالجوں کی نمائندہ تنظیم پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کی صدر پروفیسر فائزہ رعنا اور سیکرٹری جنرل پروفیسر محبوب عارف کی قیادت میں پانچ رکنی وفد نے لاہور پریس کلب کو “شرف میزبانی”بخشا۔۔۔۔۔ محترمہ فائزہ رعنا لاہور کے کینٹ کالج میں اردو کی دبنگ ایسوسی ایٹ پروفیسر جبکہ استاد گرامی قدر جناب محبوب عارف مرے کالج سیالکوٹ میں شعبہ انگریزی کے سربراہ ہیں۔۔۔محترمہ فائزہ کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پنجاب پروفیسر اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون صدر منتخب ہوئی ہیں۔۔۔۔میرے نزدیک اساتذہ کرام کا “پروٹوکول” یہ ہے کہ ان کے سامنے گردن جھکائی جائے۔۔ان کے ہاتھ چومیں جائیں۔۔ان کے گھٹنے چھوئے جائیں۔۔۔!!!لاہور پریس کلب کی بختی کہ صدر جناب ارشد انصاری اور سیکرٹری جناب زاہد کی قیادت میں منتخب قیادت نے اساتذہ کرام کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کردیے۔۔۔میری کب سے تمنا تھی کہ اساتذہ کرام لاہور پریس کلب کا دورہ کریں۔۔۔اس خواہش کے پیچھے “اپنے تئیں”گزشتہ سال ایک پروفیسر صاحب کی تھانے میں توہین کا “کفارہ”ادا کرنا بھی تھا۔۔حالاں کہ یہ ازالہ “جنگل کے بادشاہ” پولیس سربراہ کو ادا کرنا چاہیے تھا مگر انہیں کہاں خبر۔۔۔انہیں کہاں فرصت؟؟ہوا یوں کہ چائنہ سکیم کالج کے پروفیسر شیر محمد خان صاحب ایک جائز معاملے میں تھانہ مغل پورہ گئے۔۔انہوں نے بطور پروفیسر اپنا تعارف کرایا تو نیازی نامی انسپکٹر صاحب بھڑک اٹھے اور مبینہ طور پر کڑاکے دار جواب دیا کہ میں تو کسی ڈی آئی جی کو کچھ نہیں سمجھتا۔۔۔پروفیسر کیا ہوتا ہے؟؟؟جائو ادھر جاکر زمین پر بیٹھو۔۔!!!کاش کوئی اس بد بخت تھانے دار کو بتاتا کہ پروفیسر “کیا” نہیں تمہارا “باپ”ہوتا ہے۔۔!!!تھانے دار ہی نہیں اقتداریہ کا بھی یہی مائنڈ سیٹ ہے۔۔ایک دہائی پہلے پنجاب کے ایک گورنر نے بھی اقتدار کے زعم میں اساتذہ کرام کو deadwood یعنی “مردان فضول”قرار دیا تھا۔۔۔۔کوئی”بوسیدہ فکر” ہی اساتذہ کرام کو “شجر خزاں رسیدہ”ٹھہرا سکتا ہے!!!اساتذہ کرام تو “شجر سایہ دار”ہوتے ہیں جن پر کبھی “پت جھڑ “نہیں آتا۔۔۔جوں جوں قد آور ہوتے۔۔ڈھلتے جاتے اور پہلے سے زیادہ پھل دار ہوتے جاتے ہیں۔۔پیاسوں کے لیے وہ کنویں جو کبھی سوکھتے نہیں۔۔حیات بخش چشمے۔۔جتنا بہتے اتنا ہی پھوٹتے ہیں۔۔۔۔ دو ہزار تیرہ میں شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب اور پیپلز پارٹی کے مخدوم احمد محمود صوبے کے گورنر تھے۔۔۔۔ایچی سن کالج میں پرنسپل اور اساتذہ میں تنازع ہوا اور ساٹھ اساتذہ کرام کو بیروزگاری کے پروانے تھما دیے گئے۔۔۔۔تب مذکورہ گورنر صاحب نے اساتذہ کے زخموں پر نمک چھڑکا اور انہیں deadwoodکا طعنہ دیا۔۔۔تب میں نے موجودہ نگران وزیر داخلہ جناب محسن نقوی کے اخبار میں اساتذہ کے دفاع میں ایک احتجاجی کالم لکھا کہ جناب گورنر اساتذہ نہیں آپ مرد فضول ہیں۔۔۔کاش گورنر شورنر اور تھانے چھانے دار جانتے کہ کئی برس پہلے اٹلی کے ایک جج صاحب ایک پاکستانی پروفیسر کو عدالت میں دیکھ کر کھڑے ہو گئے اور چونک کر کہا تھا:–A teacher is in court–!!!!!اور پھر ساری عدالت استاد کے احترام میں کھڑی ہو گئی۔۔اشفاق احمد صاحب کا یہ واقعہ تو بچے بچے کو ازبر ہے…وہ لکھتے ہیں میں روم میں تھا کہ میرا چالان ہو گیا…مصروفیت کے باعث جرمانہ بروقت ادا نہ کر پایا…مجھے عدالت پیش ہونا پڑا….جج صاحب نے تاخیر کی وجہ پوچھی….میں نے کہا پروفیسر ہوں…..کچھ ایسا مصروف رہا کہ وقت ہی نہیں ملا…..اس سے پہلے کہ میں اپنا جملہ پورا کرتا جج صاحب کرسی سے اٹھ بیٹھے اور کہا:ایک استاد اور عدالت میں…!!!پھر وہاں موجود سب لوگ کھڑے ہو گئے اور مجھ سے معافی مانگ کر چالان کینسل کردیا…مجھے اس دن معلوم ہوا کہ اس قوم کی ترقی کا راز کیا ہے..؟؟؟؟؟ابن انشا نے بھی ٹوکیو میں ایسا ہی ایک منظر دیکھا…وہ ایک یونیورسٹی میں کسی استاد کو ملنے گئے…ملاقات کے اختتام پر وہ صاحب ان کو الوداع کہنے کے لیے باہر صحن تک چل پڑے..باتیں کرتے کرتے اچانک دونوں رک گئے…اسی دوران ابن انشا نے محسوس کیا کہ ان کے پیچھے سے گذرنے والے طلبا اچھل اچھل کر جا رہے ہیں…. اجازت لینے سے پہلے ابن انشا نے اپنے میزبان سے پوچھ ہی لیا کہ طلبا کا یہ “انداز” کیا ہے؟جاپانی استاد نے بتایا کہ سورج کی وجہ سے ہمارا سایہ پیچھے پڑ رہا تھا اور کوئی طالب علم بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کے پائوں استاد کے سائے پر پڑیں….اس لیے وہ ہمارے عقب سے اچھل اچھل کر گذر رہے تھے..!!!!کہتے ہیں جرمنی میں سب سے زیادہ تنخواہ استاد کی ہوتی ہے…..وہاں کےججوں، ڈاکٹروں اور انجنئیروں نے اساتذہ کے برابر تنخواہ کا مطالبہ کیا تو وہاں کی چانسلر نے جواب دیا کہ آپ ان کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں جو آپ کو بناتے ہیں…اساتذہ کی شان میں ان کا یہ جملہ ضرب المثل بن گیا: –A teacher is not a common man and a common man can not be a teacher–اساتذہ کے احترام کے باب میں ہماری تاریخ بھی ایک روشن باب رکھتی ہے….اس سے زیادہ احترام کیا ہو سکتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ پوری زندگی اپنے استاد کے گھر کی طرف پائوں کرکے نہیں سوئے…فلک چشم نے خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹوں کو استاد کے جوتے اٹھانے پر ایک دوسرے کیساتھ جھگڑتے دیکھا ہے…مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے شمس العلما کے خطاب کے لیے اپنے استاد گرامی قدر مولوی سید میر حسن کا نام پیش کیا تو کمیٹی نے پوچھا ان کی کوئی کتاب؟علامہ نے کہا کہ میں ان کی تصنیف ہوں… وہی میر حسن صاحب کہ ایک دفعہ علامہ اقبال سیالکوٹ میں کسی دکان کے تختے پر بیٹھ کر حقہ پی رہے تھے…اسی دوران مولوی میر حسن ادھر سے گذرے…علامہ اقبال نیچے اترے..جھک کر سلام کیا اور ادب سے پیچھے پیچھے چل دیے….علامہ کے ایک پائوں میں جوتا تھا اور دوسرے میں نہیں…..وہ اسی حالت میں اپنے استاد کو گھر تک چھوڑ کر آئے اور واپس آکر جوتا پہنا….!!!یہ تھا لاہور پریس کلب میں پروفیسر ایسوسی ایشن کے قابل صد احترام وفد کے اکرام کا پس منظر اور شاید لاہور پریس کلب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اساتذہ کرام کا اتنا پرتپاک استقبال ہوا اور اسی طرح عزت وقار کے ساتھ الوداع کیا گیا۔۔۔پروفیسر فائزہ رعنا اور پروفیسر محبوب عارف نے لاہور پریس کلب کی قیادت اور میڈیا کے سامنے “دکھی دل”کھول کر رکھ دیا۔۔۔۔انہوں نے بتایا کہ حکومت کی ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ اس محکمے کا کوئی وزیر ہی نہیں۔۔۔۔ انہوں نے کہا کہ 5 سو لیکچررز 4 مہینے قبل ترقی پاکر اسسٹنٹ پروفیسرز بن چکے لیکن محکمہ ابھی تک ان کی تعیناتی کا فیصلہ نہیں کرسکا۔۔کیڈر ری فکسیشن 5 سال قبل ہوئی۔۔سروس اینڈ پے پروٹیکشن اور ڈی آر اے کے معاملات پھنسے ہوئے ہیں۔۔۔ ڈائریکٹ سلیکشن کے ذریعے بھرتی 7 سال سے نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اساتذہ کی ہزاروں آسامیاں خالی پڑی ہیں۔۔کالج اساتذہ کے لیے 20ویں گریڈ کے بعد ترقی ہی نہیں۔۔۔۔ 5 درجاتی فارمولے پر گذشتہ حکومتوں کے دوران ہونے والی پیشرفت کو مکمل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔۔اور تو اور عمرہ حج کے لیے این او سی” مقابلے کا امتحان” بن گیا ہے۔۔انہوں نے انکشاف کیا کہ پنجاب کے 457کالجوں میں پرنسپل ہی نہیں۔۔۔اسی طرح نو میں آٹھ تعلیمی بورڈ میں چئیرمین بھی نہیں جبکہ آٹھ ڈویژن میں ڈائریکٹر کالجز کا نظام بھی اضافی چارج کے سہارے چل رہا ہے۔۔سوچنے لگا نظام تعلیم کا اس سے برا حال کیا ہو سکتا ہے۔۔ویسے میں مارچ دو ہزار بائیس سے کالج اساتذہ کو “مسائل کی گٹھری” اٹھائے دیکھ رہا ہوں۔۔۔وہ”بزدار دورحکومت” تھا اور یہی کالج اساتذہ سول سیکرٹریٹ کے سامنے خانہ بدوشوں کی طرح خیمہ زن تھے۔۔تب سے کبھی لاہور تو کبھی اسلام آباد میں سراپا احتجاج ہیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں۔۔۔ان دو برسوں میں پنجاب میں چار وزرائے اعلی اور دو گورنر آئے اور چلے گئے۔۔عثمان بزدار۔۔پرویز الہی۔۔۔ حمزہ شہباز اور محسن نقوی وزیر اعلی جبکہ چودھری سرور اور بلیغ الرحمان گورنر تھے۔۔۔اب محترمہ مریم نواز پنجاب کی وزیر اعلی اور جناب سردار سلیم حیدر گورنر ہیں۔۔یہ عالم گیر سچائی ہے کہ اساتذہ کرام کا وقار نہیں اقتدار عارضی ہے۔۔۔اس سے پہلے کہ “تاج و تخت”چھن جائیں، معماران قوم کے زخموں پر مرہم رکھ دیجیے کہ اساتذہ کرام کے آنسو نیک شگون نہیں۔۔!!جناب انور مسعود نے کسی ایسے ہی” منظر نامے” پر دل گرفتہ ہو کر کہا تھا:یہ غم کھاتا چلا جاتا ہے مجھےمجھے اس خوف سے فرصت نہیں ہےکہیں برکت نہ اٹھ جائے وہاں سے جہاں استاد کی عزت نہیں ہے۔(امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب)۔۔