تحریر: علی انس گھانگھرو۔۔
سندھ کے علاقے کندھ کوٹ میں 6 اپریل جمعہ رات صبح کے وقت قبیلائی دہشتگردی میں آئی بی اے یونیورسٹی سکھر کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اجمل ساوند کو برادری /ذات کے بنیاد پر فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا. قتل کے بعد سندرانی دہشتگردوں نے خوشی میں فائرنگ کرتے ہوئے ویڈیو بھی رکارڈ کرلی، کہ شاید اس مرتبہ کوئی پڑھا لکھا افسر قتل کیا ہے. انہیں پتا ہی نہیں تھا کہ انہوں نے فرانس کی یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس / آئی ٹی میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر پروفیسر کو قتل کر دیا ہے. ڈاکٹر اجمل کا تعلق کندھ کوٹ کے نواحی علاقے سے ہے، لیکن اس وقت وہ اپنے خاندان سمیت سکھر کی سوسائٹی میں رہائش پذیر ہیں. ڈاکٹر اجمل کے بڑے بھائی طارق ساوند اور چچا ڈاکٹر ہیں، جبکہ کزن وغیرہ ایف آئی اے اور دیگر محکموں میں افسر ہیں، ان کا خاندان ساوند قبیلے میں معزز پڑھا لکھا ہے جسے آپ سرداری گھرانہ کہ سکتے ہیں مگر انہوں نے اپنے نام کے ساتھ کبھی لفظ سردار یا وڈیرہ نہیں لگایا.
ڈاکٹر اجمل کا قتل کیوں ہوا؟ کندھ کوٹ کے نواحی علاقے میں کچھ عرصہ قبل دو قبائل سندرانی اور ساوند میں کارو کاری کے فرسودہ نظام کے تحت ساوند فریق نے اپنی ایک خاتون اور سندرانی شخص کو الزام کے تحت قتل کر دیا. جوابی طور پر سندرانی قبائل نے پلاند میں ایک ساوند کو قتل کردیا، جوابی طور پر دو سندرانی افراد کو قتل کر دیا گیا. لیکن یہ جھگڑا دو خاندانوں کے بیچ میں تھا. اس جھگڑے سے ڈاکٹر اجمل یا ان کے خاندان کے کسی فرد کا کوئی تعلق نہیں تھا. ڈاکٹر اجمل اپنی زمینیں گھومنے اور گوٹھ کا چکر لگانے چلے گئے انہیں پتا نہیں تھا شاید وہ اپر سندھ کو فرانس کا شہر پئرس سمجھ بیٹھا تھا. جیسے ہی وہ واپسی سکھر کے طرف آریے تھے صرف برادری زات قبائل کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا اور موت کے گھاٹ اتار دیا گیا.
ڈاکٹر اجمل ساوند صوفی ازم، تصوف پر یقین رکھنے والے نوجوان تھے، ان کی اپنی زبانی ہے کہ وہ فرانس میں ایک گھنٹہ پڑھانے کے 30 ہزار روپے لیتے تھے. لیکن انہوں نے فرانس یورپ میں رہنے کو ترجیح دینے کے بجائے واپس اپنے ملک میں آیا، تاکہ وہ یہاں پر تعلیم دے سکیں. وہ چاہتے تھے کہ اپر سندھ جہاں قبیلائی دہشتگردی، اغوا برائے تاوان، چوری، ڈکیتی ،قتل و غارت ،کارو کاری جیسی فرسودہ رسومات ہیں، ان کا خاتمہ ہو، اور یہاں کے بچے لڑکے لڑکیاں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اعلی تعلیم حاصل کرکے ملک و قوم کا نام روشن کریں. اور جہالت کا خاتمہ ہو سکے، ڈاکٹر اجمل ساوند کی میت کندھ کوٹ سے سکھر لائی گئی تو بڑی تعداد میں شہری، سول سوسائٹی، مختلف سیاسی سماجی جماعتوں کے کارکن، اساتذہ، طلبہ نے پہنچ کر جناز نماز میں شرکت کی.
سندھ میں گزشتہ 15 سالوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے. شہید بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی کو اقتدار ملا اس وقت بھی حکومت ان کے پاس ہے. سندھ میں سکھر لاڑکانہ ڈویژن پر مشتمل بیلٹ کو اپر سندھ کہا جاتا ہے. ان میں سکھر، گھوٹکی، کندھ کوٹ، کشمور، گھوٹکی، جیکب آباد، لاڑکانہ، قمبر شہداء کوٹ، خیرپور شامل ہیں. دریائے سندھ کے دونوں جانب کچے کا علاقہ لگتا ہے، کشمور سے صوبا پنجاب اور کندھ کوٹ سے لیکر جیکب آباد اور قمبر شہدادکوٹ تک بلوچستان کی سرحد لگتی ہے. سندھ میں جتنے برادری تکرار، قتل و غارت ،اغوا برائے تاوان، زمینوں پر قبضہ کے جھگڑے ہوتے ہیں وہ ان ہی علاقوں میں ہوتے ہیں. یہاں پر سرداری نظام، جاگیرداروں کا نظام ہے، ان علاقوں سے ہمیشہq حکمران جماعت کے ایم این اے ایم پی اے بھی سردار منتخب ہوتے ہیں اور وہ اس وقت تمام کے تمام پیپلز پارٹی میں شامل ہیں. کچے کے علاقے میں فاریسٹ کی لاکھوں ایکڑ زمین پر سرداروں کا قبضہ ہے، ڈاکوؤں ان زمینوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور ساتھ میں وہ منتخب نمائندے، سردار کی پشت پناہی پر انتخابات میں پولنگ جتواتے ہیں. جعلی تھپے لگا کر بیلٹ باکس بھرتے ہیں اور ہر کام سرداروں کیلئے سرانجام دیتے ہیں. جب کسی قبائل کا جھگڑا ہوتا ہے تو ان میں آج تک نہ کوئی سردار قتل ہوتا ہے نہ ان کا بیٹا، نہ کوئی ایم این اے قتل ہوتا نہ ایم پی اے نہ ہی سینیٹر قتل ہوتا ہے. قتل عام غریب لوگ ہوتے ہیں اور پڑھے لکھے افراد کو قتل کیا جاتا ہے.
سندھ میں قبیلائی دہشتگردی میں ملوث عناصر کے خلاف نہ کارروائی ہوتی ہے نہ کوئی ملزم گرفتار کیا جاتا ہے. ان جھگڑوں کا فیصلہ بھی سردار کرتے ہیں قتل قتل میں برابر کرکے فریقین کی صلح کرائی جاتی ہے. کچھ سال قبل سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ میں جسٹس صلاح الدین پنہور نے جرگوں پر پابندی عائد کردی تھی. وقتی طور پر عمل ہوا لیکن عدالتی نظام سلو اور سست ہونے کی وجہ سے جرگے شروع ہوگئے. لیکن ایک فائدہ یہ ہوا کہ قتل کے بدلے بچیوں کی کم عمری میں شادی کرائی جاتی تھی وہ عمل رک گیا ہے.
سندھ میں اس وقت سندھ حکومت کی جانب سے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن شروع کی جا رہی ہے، مگر پولیس سے زیادہ جدید اسلحہ راکٹ لانچر، جی تھری جیسے ہتھیار ڈاکوؤں کے پاس ہیں. یہ جدید اسلحہ ڈاکوؤں کے پاس کیسے پہنچتا ہے؟ ان کی مالی سپورٹ کون کر رہا ہے؟ کیوں کہ اسی کشمور میں درانی مہر تھانے کے حدود میں پولیس آپریشن کے دوران ڈاکوؤں کے حملے میں ایک ایس او شہید ہوگا جبکہ ڈی ایس پی سمیت 4 اہلکار زخمی ہوگئے. سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ میں جسٹس صلاح الدین پنہور نے فیصلہ دیا تھا کہ جہاں کوئی قتل یا نقصان ہوجائے وہاں کے سردار کو گرفتار کیا جائے. ڈاکوؤں قاتلوں کے سرپرست، بینیفشریز، سہولتکار وائٹ کالر پکے کے ڈاکوؤں کو ختم کیا جائے. اس وقت جہاں پر الیکشن کرانے کیلئے سیاسی کشمکش چل رہی ہے. پیپلزپارٹی کے چیئرمین وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ، آصف علی زرداری کو چاہیے کہ وہ سندھ کی طرف توجھ دیں، جہاں پر سندھ جل رہی ہے لوگو ڈاکوؤں، قاتلوں، کے رحم و کرم پے ہیں. کبھی آنکھوں کا ہندو سرجن ڈاکٹر بیربل قتل ہوتا ہے تو کہیں آئی بی اے یونیورسٹی سکھر کا پروفیسر ڈاکٹر اجمل قتل ہو رہا ہے. سندھی لوگ آج تک پیپلز پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں،وہ پنجاب یا کے پی کی طرح ہر مرتبہ حکومت بھی تبدیل نہیں کرتے. آئے دن بے نظیر بھٹو قتل ہوتی ہے تو کبھی مرتضیٰ بھٹو قتل ہوتا ہے تو کبھی ذوالفقار علی بھٹو بھوک کی وجہ سے پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے. لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی. سندھ میں ڈاکٹر اجمل کے قتل پر سوگ چھایا ہوا ہے. سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ چل رہا ہے. حکومت فوری طور پر سندھ کی طرف توجہ دے امن امان کی صورتحال بہتر بنائی جائے. قتل میں عناصر کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ کل کسی اور پروفیسر کو قتل نہ کیا جائے۔۔(علی انس گھانگھرو)