تحریر: سید بدرسعید۔۔
سٹاک مارکیٹ کے بعد رقم تیزی سے ادھر ادھر ہونے کی جو بڑی مارکیٹس ہیں ان میں ایک پرائز بانڈ کی مارکیٹ بھی ہے ۔ اس کاروبار میں کئی بڑے نام خفیہ طور پر شامل ہیں اور کئی بڑے کاروباری افراد کھلے عام یہ دھندہ کرتے ہیں ۔ روزانہ لاکھوں نہیں کروڑوں روپے ادھر سے ادھر ہوتے ہیں ۔ اگلے روز لاہور میں پرائز بانڈ کے ایک بڑے اور مشہور تاجر کا دفتر بند تھا ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ جن دنوں کروڑوں روپے اوپر نیچے ہو رہے ہیں انہی دنوں یہ دفتر بند کیسے ہو سکتا ہے ۔ پھر میں نے اسی شہر کے فٹ پاتھ پر کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ چائے پی جن کے معمولی شلوار قمیص کے نیچے پہنے گئے بڑی جیبوں والے “سلوکے ” میں لاکھوں۔ کروڑوں روپے ہوتے ہیں اوریہ بے فکری سے گھومتے پھرتے ہیں ۔ لاہور کے بڑے نجی لاکرز انہوں نے خرید رکھے ہیں ۔ ایسے ہی تین چار لوگوں کے ساتھ فٹ پاتھ اور تھڑوں پر چائے اور نان چنے کھاتے ہوئے اندر کی کہانی کھلنے لگی ۔ یہ کہانی ایک بڑے شخص کے لالچ سے شروع ہوتی ہے ۔ پرائز بانڈ کے بزنس سے منسلک ایک بڑا تاجر گولڈ کے جوئے میں تقریبا 80 کروڑ ہار جاتا ہے ۔ وہ یہ جواجیتتا تو ملنے والی رقم اربوں میں ہوتی لیکن ہارنے کے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ جیسے ہی یہ بات باہر نکلے گی اس کی مارکیٹ کریش کر جائے گی کیونکہ لاہور میں پرائز بانڈ کے دھندے کا اسی فیصد کاروبار زبان کی بنیاد پر چلتا ہے ۔ کروڑوں روپے کی رقم صرف اعتماد اور زبان کی یقین دہانی پر ادھر سے ادھر ہوتی ہے ۔ اس تاجر کے پاس بھی اسی دھندے سے منسلک تاجروں اور منی چینجرز کے مالکان کے کروڑوں روپے پرائز بانڈ کی شکل میں انویسٹ ہیں ۔ وہ فوری طور پر سب سمیٹ کر باہر نکلنے کی پلاننگ کرتا ہے کیونکہ اس کا ایک بھائی پہلے ہی بیرون ملک سیٹل ہو چکا تھا ۔ اگلے روز اس کا دفتر نہ کھلنے پر لاہور کی پرائز بانڈ مارکیٹ میں ہلچل مچ جاتی ہے ۔ بہرحال اس معاملے میں لاہور کے ایک مذہبی راہنما کو درمیان میں ڈالا جاتا ہے ، تاجر کو واپس لایا جاتا ہے اور پھر کہانی کھلتی ہے ۔ پنچائیت میں طے پاتا ہے کہ تاجر دوبارہ اپنی جگہ بیٹھ کر کاروبار چلائے گا اور جن لوگوں کی رقم اس کے یہاں انویسٹ تھی وہ انہیں اقساط میں اصل رقم ادا کرے گا یہ رقم اربوں روپے میں ہے لیکن ان لاکھوں یا کروڑوں میں واپس دی جائے گی ۔ یہاں ایک اور کہانی بھی چل رہی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ سب بھی ایک گیم تھی ۔ سٹاک مارکیٹ کی طرح پرائز بانڈ کی مارکیٹ میں بھی ایسے کھیل کھیلے جاتے ہیں ۔ جن لوگوں کے کروڑوں روپے ڈوب رہے تھے ان کے لئے اس وقت یہ بھی کافی تھا کہ انہیں اصل رقم واپس مل جائے گی لیکن اگر یہ گیم تھی تو اس تاجر نے بہت بڑی گیم کھیلی ہے ۔ کئی منی چینجرز اور تاجروں کے پیسے اس کے پاس پرائز بانڈ کی صورت موجود تھے ۔ کچھ بانڈز کی سیل پرچیز چلتی تھی اور باقی بچ جانے والے کروڑوں روپے کے پرائز بانڈ کے نمبرز قرعہ اندازی سے قبل اصل مالکان کو بھیج دیئے جاتے تھے اور ان پر اگر انعام نکلتا تو وہ بھی حصہ کاٹ کر انہیں بھیج دیا جاتا یوں انہیں گھر بیٹھے انعامی رقم بھی مل رہی تھی اور سیل پرچیز کا منافع بھی رہا تھا ۔ پہلے یہی تاجر کروڑوں روپے انویسٹمنٹ پر منافع دے رہا تھا لیکن اب دیوالیہ قرار پا کر یہ ان سب سے بری الذمہ ہو گیا ہے ۔ اب یہ ان لوگوں کی انویسٹمنٹ کے منافع سے ہی انہیں قسطیں ادا کرے گا اور نہ تو رقم ایک ساتھ دے گا اور نہ ہی کسی قسم کا منافع ادا کرے گا ۔ یہ کہانی ابھی کتنا آگے تک چلے گی اس کا اندازہ نہیں لیکن پرائز بانڈ مارکیٹ میں ایسی کئی کہانیاں اور کئی کھیل چلتے رہتے ہیں ، مثال کے طور پر لاہور میں پرائز بانڈ کے نام سے سب سے معروف اور معتبر ڈیلر کا نام ” ثمر اینڈ ثمر ” ہے ۔ کیا آپ جانتے ہیں اصل ثمر یعنی پہلا مالک سب کچھ سمیٹ کر کافی پہلے بیرون ملک منتقل ہو گیا تھا ، اس وقت بھی مارکیٹ کو بہت بڑا دھچکا لگا تھا ۔ اصل مالک بیرون ملک ہے لیکن نام ابھی تک پورے اعتماد سے چل رہا ہے اور اپنی ساکھ بنائے ہوئے ہے (سید بدر سعید)