تحریر: محمد زکریا محی الدین۔۔
مضامین کے اس سلسلے سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ یہ راقم کی ذاتی رائے ہے جو گذشتہ طویل تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر قائم ہے۔
دوہزار دو میں پرائیویٹ چینلوں کی اجازت ملنے کے بعد ناظرین کو وہ خبریں دیکھنے کو ملیں جو اس سے پہلے سرکاری کنٹرول میں رہنے والا اکلوتا ٹی وی چینل نہیں دکھا سکتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جیو نے پہلی دفعہ ڈیفنس فیز ٹو میں پولیس اور دہشت گردوں کے درمیان مقابلہ براہ راست دکھایا تھا جس کی وجہ سے اس کی شہرت یا ویور شپ بہت اوپر چلی گئی تھی۔ 2015 تک بھی نیوز چینل میڈیا کا ایک معتبر رکن ہوا کرتا تھا مگر 2015 کے بعد سوشل میڈیا کا عروج شروع ہوا اور ساتھ ہی نیوز چینل مالکان نے بھی اس نئے میڈیا کا سامنا کرنے کے لئے کوئی اسٹریٹیجی بنانے سے گریز کیا ساتھ ہی کاروباری مفاد صحافت سے ذیادہ ترجیع دیا جانے لگا ۔آج صورتحال بدلی ہوئی ہے ۔ نیوز چینل اپنا اعتبار کھو چکے ہیں اور ان کی ویورشپ انتہائی بری طرح سے گر رہی ہے۔ اب کسی کو یہ کہنے کیضرورت شائد نہیں پڑ رہی کہ ہر جگہ ہر وقت سب سے پہلے۔۔۔۔۔فلاں نیوز کیوں کہ فلاں نیوز اپنے الگ ہی ایجنڈوں پر ہیں جس کا بہرحال صحافت سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ ذیل میں نیوز چینلوں کے زوال کی چند وجوہات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
1: ریس میں دوسرا نمبر
پرائیویٹ چینلوں کی صفت تھی کہ وہ ہر نئی خبر کو سب سے پہلے اپنے ناظرین تک پہنچانا اپنا فخر سمجھتے تھے۔ ایک زمانہ تھا کہ بریکنگ نیوز کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ خاص طور پر جب پرویز مشرف کے دور میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جا رہی تھی اور پاکستان کے مختلف شہر دہشت گردی کی لپیٹ میں تھے اس وقت کون سب سے پہلے خبر چلاتا ہےکی ریس میں سچ جھوٹ سب چل رہا تھا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں ایک چینل میں ملازمت کررہا تھا تو چندریگر روڈ کی مرمت یا تعمیر کی جارہی تھی بڑے بڑے بلڈوزر سڑک پر چل رہے تھے اور شائد انہی کی دھمک سے کچھ بلڈنگیں ہل گئیں ۔ ہمارے چینل نے چندریگر روڈ پر ذلزلہ آنے کی خبر چلا دی اور پورا چندریگر روڈ خالی ہوگیا۔ مگر سوشل میڈیا کے آنے کے بعد اس دوڑ کو بریک سی لگ گئی کیونکہ اس سے پہلے کہ خبر ٹی وی پر چلتی ٹیوٹر یا فیس بک پر چلنا شروع ہوجاتی تھی۔ اس میں ظاہر ہے چینل کی مجبوری بھی تھی کہ جب تک خبر کی تصدیق نہ ہو وہ چلا نہیں سکتے مگر ان کا ریسپونس ٹائم پھر بھی اس نوجوان سے کم ہی رہے گا جو جائے وقوع پر ایک اسمارٹ فون اور ڈیٹا پیکیج لئے کھڑا ہو۔ لہذا جب تک خبر ٹی وی پر آتی ملک بھر میں ناظرین کو سوشل میڈیا کی وجہ سے پتا چل ہی جاتا تھا اور کئی دفعہ تو چینل کی خبر بس ایک رسمی کاروائی بن گئی ہے۔
2: نیوز شوز کی یکسانیت
ابتداء میں ناطرین کے لئے یہ بڑی انوکھی بات تھی کہ ایک پروگرام میں اینکر کے سامنے تین یا چار مختلف نظریات وہ خیالات رکھنے والے معروف لوگ بیٹھے سوالات کے جوابات یا کسی مسئلہ پر گفتگو کررہے ہیں پھر یہ کہ ان میں بعض اوقات تلخ صورتحال بھی پیش آجاتی تھی اور دیکھنے والے کو مزا آتا تھا۔ کئی دن تک اس پر بات ہوتی تھی۔ ایسے اینکر چاہے سیاسی شو کرتے تھے ، سماجی یا مذہبی چینلوں کا چہرا سمجھے جانے لگے۔مگر کب تک؟ ایک وقت آیا کہ ایک عام ناظر کی دلچسپی ان کی یکسانیت سے بور ہوگئی دوسری طرف یو ٹیوب پر اس سے بہتر فارمیٹ غیر ملکی نیوز چینلوں کے نظر آنے لگے ۔
3: عوامی دلچسپی کے عنصر کا غائب ہونا
ابتداء میں نیوز چینلوں نے اس بات کا خیال رکھا کہ خبروں اور شوز میں عوامی دلچسپی کا عنصر موجود رہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ خبروں اور شوز میں سے وہ عنصر غائب ہو کر مالکان کی پالیسی کے مطابق ہونا شروع ہوگیا۔ خاص طور سے سیاسی شوز میں وہی بات کی جانے لگی جس سے مالکوں کا مفاد کہیں نہ کہیں جڑا ہوا ہوتا اور اب تو یہ صورتحال بہت گہمبیر ہے۔ تقریبا ہر شو میں کوئی نا کوئی تنازعہ کھڑا کیا جانے لگا جو شروع میں تو اچھا لگا مگر بعد میں سمجھ آگئی کہ ایسا صرف ویور شپ کے لئے کیا جا رہاہے۔ یہاں تک کہ ایک مذہبی شو میں تو خاص طور پر اس بات کا خیال رکھا جاتا کہ تنازع کھڑا کیا جائے اب اس سے ایک طرف تو دیکھنے والے کو بڑا مزا آیا کہ جی فلاں نے فلاں کو یہ کہہ دیا فلاں بھڑک گیا مگر سنجیدگی اور میانہ روی کا عنصر غائب ہونے لگا اور دھیرے دھیرے دیکھنے والوں کی تعداد بھی۔ ایسا نہیں تھا کہ ایسی خبریں اور شوز کئے نہیں گئے مگر ایک وقت آیا کہ یہ شوز بند کردئے گئے ۔ یہاں میں مثال دینا چاہتا ہوں جیو پر ایس پی ٹو نامی ایک شعبہ کی جس کی سربراہی عدنان اعوان کررہے تھے۔ اس شعبہ نے معرکتہ الارآ انفو ٹینمنٹ کے شوز بنائے جس میں عوامی دلچسپی بھی تھی مگر یک جنبش قلم ایک صبح عدنان کو بتایا گیا کہ آپ کا شعبہ ختم ہوگیا ۔اب صورتحال یہ ہے کہ نیوز شوز بنیادی طور پر اس پالیسی پر ہوتے ہیں جن میں غالب رنگ مالکان کے سیاسی اور کاروباری مفاد کا ہے۔ مثال کہ طور پر ملک ریاض صاحب کے کسی بھی مسئلہ پر کوئی چینل کچھ رپورٹ نہیں کرتا ۔۔بھی حال ہی میں علیم خان صاحب کی کسی سوسائیٹی کے متاثر کی ایک کلپ وائرل ہوئی تھی مگر ان کے مخالف چینل کو بھی اس و دکھانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اور یقینا عوامی دلچسپی کو مد نظر کیوں رکھا جائے جب چینل کی ملکیت کاروباری افراد کے پاس ہو؟
4: سیاسی دھڑا بندی
عموما میڈیا کسی نہ کسی سیاسی نظریہ یا پارٹی کی حمائیت کرتا رہا ہے۔ مگر 2015 کے بعد پرائیویٹ نیوز چینل یوں لگنے لگے جیسے سیاسی پارٹیوں کے ترجمان بن گئے۔ تقریبا ہر نیوز چینل کسی نہ کسی سیاسی ایجنڈے کا داعی بن گیا۔ جہاں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ میڈیا کا کام غیر جانبدار رہنا ہے وہیں ان چینلوں کے ناظرین بھی اپنی پسند یا سیاسی وابستگی کی بنیاد پر بٹ گئے۔ اس وقت تو صورتحال اور بھی گمبہیر ہے کہ ایک چینل کے مینیجنگ ڈائریکٹر پنجاب کے نگراں وزیر اعلی ہیں ایک صحافی (جن کے بھائی معروف صحافی ہیں ) پنجاب میں نگراں وزیر برائے اطلاعات ہیں۔ ایک اور صحافی کی نگراں وزیر اعظم بننے کی خبریں ہیں
ویسے تو میری ناقص رائے میں اور بھی کئیں وجوہات ہیں جس کی وجہ سے نیوز چینل اب اتنے معتبر نہیں رہے جتنے کہ کبھی ماضی میں ہوا کرتے تھے مگر یہ کچھ بنیادی وجوہات ہیں۔ سوشل میڈیا کے عروج سے بھی نیوز چینلوں کو بہت فرق پڑا ہے اب کوئی بھی اٹھ کر تجزیہ کے نام پر کسی بھی سیاسی موضوع پر اظہار خیال کرنا شروع ہوجاتا ہے جھوٹ سچ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ سنسنی پھیلانا سب سے ضروری ہے اس قسم کے نئے سیاسی تجزیہ نگاروں کے لئے کیونکہ ان کو ٹیلیوژن اسکرین کبھی نہیں ملی۔ اس پر ان کے بلند و بانگ دعوے اور اندرونی رابطوں کی کہانیاں۔ دیکھنے والے کو بھی چسکہ ہی چاہئے ہوتا ہے شائد۔ سچ ، سنجیدگی اور تحقیق کا عنصر اہم نہیں ہے۔
چینل مالکان نے بھی اب اپنی نیوز چینل اسکرینوں پر کیا جا رہا ہے کیا نہیں پر توجہ ختم کردی ہے۔ یہ شائد صرف اس وقت متوجہ ہوتے ہیں جب ان کا اپنا کوئی مفاد ہوتا ہے۔(محمد زکریا محی الدین)